بانی ندوۃ العلماء

حضرت مولانا سید محمد علی کانپوری مونگیریؒ
بانی وناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد علی کانپوری ثم مونگیری کا خاندانی انتساب سید حسن بن علی رضی اللہ عنہ تک حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے واسطہ سے پہنچتا ہے۔ آپ کے اولین اجداد بغداد سے بخارا اور بخارا سے ہندوستان، جہاں ملتان کے بعد مظفر نگر آئے۔ آپ کی ولادت ۳ شعبان المعظم ۱۲۶۲ء ۲۸ جولائی ۱۸۴۶ء کو کانپور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ درسیات کی تکمیل استاذ الاساتذہ مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی سے کی۔ حدیث کی تکمیل سہارنپور جاکر مولانا احمد علی سہارنپوری سے کی۔ سلوک اویس زمانہ حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی سے طے کیا۔ اور بیعت وارشاد کی اجازت سے سرفراز ہوئے۔ مزید انھیں حضرت حافی امداداللہ مہاجر مکی کی طرف سے بھی اجازت حاصل تھی۔
مدرسہ فیض عام کانپور کے جلسۂ دستار بندی میں علمائے وقت ومشائخ کبار اور قائدین ملت نے یہ فیصلہ کیا کہ علماء کی ایک انجمن قائم کی جائے۔ ۱۳۱۱ھ میں اس تجویز پر عمل ہوا اور انجمن کا نام ندوۃ العلماء قرار پایا۔ حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ اس کے ناظم اول مقرر ہوئے۔ نواب صدریارجنگ، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروان
چنانچہ اس کا پہلا اجلاس ۱۵،۱۶،۱۷ شوال ۱۳۱۱ء مطابق ۲۲،۲۳،۲۴ اپریل ۱۸۹۴ء مدرسہ فیض عام کانپور میں ہوا۔ پھر اس کے اجلاس مختلف شہروں میں ہوئے۔ انجمن معین الندوہ کا قیام بھی عمل میں آيا۔ اور دوسری طرف ندوۃ العلماء کی شاخیں قائم ہوئی اور ندوۃ العلماء کے ماتحت دار العلوم ندوۃ العلماء کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اركان ندوۃ العلماء کے تبادلۂ خیال سے اس کومنظوری دی گئی۔ اور مختلف آراء کے بعد لکھنؤ کا انتخاب عمل میں آیا۔ جس کی طرف حضرت مولانا محمد علی کا رجحان تھا اور ۹ جمادی الاول ۱۳۱۶ھ مطابق ۲۶ستمبر ۱۸۹۸ء کو اس کا آغاز کردیا گیا۔ ۱۳۲۱ھ میں ان کا استعفاء منظور ہوا اور وہ ترک وطن کرکے مونگیر تشریف لے گئے اور مسیحیت اور قادیانیت کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اپنی تحریروں، مواعظ اور بیعت وارشاد کے ذریعہ بہار کو تاریکی سے روشنی کی طرف نکالا۔ ۶ ربیع الاول سہ شنبہ ۱۳۴۶ھ بمطابق ۱۳ ستمبر ۱۹۲۷ء یہ آفتاب رشدوہدایت غروب ہوا۔ اور اللہ اللہ کہتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی۔
ندوۃ العلماء کے علاوہ ان کو اللہ تعالی شاگردوں اور خلفاء ومریدین اور بلند مرتبہ صاحبزادگان اور احفاد عطا فرمائے، جن سے ایک طرف ان کا سلسلۂ سلوک وبیعت وارشاد جاری ہوا، اور دوسری طرف ارتداد اور بدعات کی بیخ کنی ہوئی، اور تحفظ دین وشریعت کا کام انجام پایا۔