ندوۃ العلماء کا مسلک

ندوۃ العلماء کا مسلک
از: حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ
دین وعقائد کے معاملہ میں ندوۃ العلماء کے مسلک کی بنیاد دین خالص پر ہے جو ہر قسم کی آمیزش وآلائش سے پاک ہے ، تاویل اور تحریف سے بلند ، ملاوٹ اور فریب کی دسترس سے دور اور ہر اعتبار سے مکمل اور محفوظ ہے۔
دین کے فہم اور تشریح اور تعبیر میں اس کی بنیاد اسلام کی اولین اور صاف وشفاف سرچشموں سے استفادہ اور اس کی اصل کی طرف رجوع پر ہے۔
اعمال واخلاق کے شعبہ میں دین کے جوہر ومغز کو اختیار کرنے، اس پر مضبوطی سے قائم رہنے، احکام شرعیہ پر عمل، حقیقتِ دین اور روحِ دین سے زیادہ قربت تقوی اور صلاح باطن پر ہے۔
تصور تاریخ میں اس کی بنیاد اس پر ہے کہ ا سلام کے ظہور اور عروج کا دور اول سب سے بہتر اور قابل احترام دور، اور وہ نسل جس نے آغوش نبوت ﷺ اور درسگاہ رسالت ﷺ میں تربیت پائی اور قرآن وایمان کے مدرسہ سے تیار ہوکر نکلی سب سے زیادہ مثالی اور قابل تقلید نسل ہے اور ہماری سعادت ونجات اور فلاح وکامرانی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
نظریۂ علم اور فلسفۂ تعلیم میں اس کی اساس اس پر ہے کہ علم بذات خود ایک اکائی ہے جو قدیم وجدید اور مشرق ومغرب کے خانوں میں تقسیم نہیں کی جاسکتی اگر اس کی کوئی تقسیم ممکن ہے تو وہ تقسیم صحیح اور غلط، مفید اور مضر اور ذرائع اور مقاصد کے اعتبار سے ہوگی۔
استفادہ اور افادہ اور ترک وقبول کے شعبہ میں اس کا عمل اس حکیمانہ نبوی تعلیم پر ہے کہ "الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهو أحق بها" (حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے جہاں بھی وہ اس کو پائے وہ اس کا مستحق ہے)، نیز قدیم حکیمانہ اسلوب: "خذ ما صفا ودع ما كدر" یعنی جو صاف ونظیف ہو اس کو لے لو اور جو آلودہ اور کثیف ہو اس کو چھوڑ دو۔
اسلام کے دفاع اور عصر حاضر کی لادینی قوتوں کے مقابلہ میں اس کی اساس اس ارشاد ربانی پر ہے: "وأعدوا لهم ما ا ستطعتم من قوة" [الأنفال] یعنی ان کے مقابلہ کے لیے جتنی قوت تم سے ممکن ہوسکے تیاری کرو۔
دعوت الی اللہ، اسلام کے محاسن وفضائل کی تشریح اور ذہن وعقل کو اس کی حقانیت وصداقت پر مطمئن کرنے میں اس کا عمل اس حکیمانہ وصیت پر ہے کہ: "كلموا الناس على قدر عقولهم, أتريدون أن يكذب الله ورسوله" یعنی لوگوں سے ان ک عقلوں کا خیال رکھتے ہوئے گفتگو کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلا دیا جائے۔
عقائد واصول میں وہ جمہور اہل سنت کے مسلک کی پابندی اور سلف کے آراء وتحقیقات کے دائرہ میں محدود رہنا ضروری سمجھتا ہے فروعی اور فقہی مسائل کے بارے میں اس کا مسلک واصول یہ ہے کہ حتی الامکان اختلافی مسائل کو چھیڑنے اور ہر ایسے طرز عمل سے احتراز کیا جائے جس سے باہمی منافرت بڑھے اور امت کا شیرازہ منتشر ہو، سلف صالحین سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے، اسلام کی مصلحت اجتماعی کو ہر مصلحت پر ترجیح دی جائے۔
مختصر یہ کہ وہ حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی ۱۱۷۶ھ) کے علمی وفکری اور کلامی وفقہی مدرسۂ فکر سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہے اس لحاظ سے ندوۃ العلماء ایک محدود تعلیمی مرکز سے زیادہ ایک جامع اور کثیر المقاصد دبستان فکر اور مکتب خیال ہے۔