تعارف

سال ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۲ءمیں ایسے ماحول میں ندوۃالعلماء کا قیام عمل میں آیا، جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور عیسائی مشنریاں آزادانہ طور پر مسیحیت کی دعوت دے رہی تھیں اور پورے ملک میں گھوم پھر کر اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرکے غیرتعلیم یافتہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی مہم پورے زور وشور کے ساتھ جاری تھی، ایک طرف یہ ہورہا تھا، دوسری طرف ہمارے علماء کا فروعی مسائل میں اختلاف کا یہ عالم تھا کہ کبھی تو مقدمہ کی نوبت آجاتی اور علماء غیرمسلم ججوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث ان ججوں کے نیچے ڈھیر ہوتیں۔
انگریزوں کے لائے ہوئے غیراسلامی نظام تعلیم کے اثر سے مسلمان قدیم وجدید کے دو متوازی طبقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک طرف علمائے دین تھے جو عربی مدارس سے قدیم طرز پر پڑھ کر نکل رہے تھے، دوسری طرف مغربی تعلیم یافتہ حضرات جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروردہ تھے، ان دونوں کے درمیان اجنبیت اور بے گانگی کی خلیج تھی جو دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، علماء مسلم معاشرہ کی پاسبانی ونگرانی اور مغربی علوم کے حملوں اور اس کے تشکیکی اثرات سے مسلمان نوجوانوں کی حفاظت میںسخت دشواری محسوس کررہے تھے اور تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کے غاشیہ برداروں اور فکری و تہذیبی شکست کے نقیبوں کے اثر کا شکار ہوتا جارہا تھا، غرض کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ان دونوںطبقوں کے درمیان ہچکولے کھارہا تھا، جس میں سے ایک طبقہ قدیم طرز تعلیم اور مسلک سے کسی فروعی اختلاف کو بھی ایک قسم کی تخریب اور ضلال سمجھتا تھا، دوسرا طبقہ مغرب سے آنے والی ہر چیز کو عظمت وتقدس کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کو ہرعیب ونقص سے پاک سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اہل مغرب کے افکار اور فکری رجحانات بھی اس کو عظمت اور علمیت کا پیکر نظر آتے تھے اور ان کو وہ ذہن انسانی کی پرواز کی آخری منزل تصور کرتا تھا، ان دونوں طبقوں کے درمیان جو فکری تضاد تھااور جس طرح وہ دو انتہائی سروں پر تھی ، اس کی تصویر لسان العصر اکبرالٰہ آبادی نے اس شعر میں کھینچی ہے
ادھر یہ ضد ہے کہ لیمن بھی چھو نہیں سکتے
ادھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحیِ مے لا
یہ ہے ان حالات کا عطر وخلاصہ جن سے ملت اسلامیہ ہندیہ گذر رہی تھی، انہیں حالات میں ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں ایک ہمہ گیر علمی ودینی تحریک کی حیثیت سے ندوۃالعلماء کا قیام عمل میں آیا، اس تحریک نے بہت قلیل عرصہ میں پورے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی، ندوۃالعلماء کے جلسے جس شان وشوکت کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تحریک کی جڑیں اندرون ملک کتنی گہری اور اس کا دائرہ کار اور حلقۂ اثر کتنا وسیع تھا، یہ تحریک چند بنیادی مقاصد کے لیے سرگرم تھی، جن میں سے چند چیزیں یہ تھیں
علوم اسلامیہ کے نصاب درس میں بنیادی اصلاحات اور نئے نصاب کی تیاری۔
ایسے علماء تیار کرنا جو کتاب وسنت کے وسیع وعمیق علم کے ساتھ جدید حالات سے بخوبی واقف اور نبض شناس ہوں۔
اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا، نزاع باہمی کے فتنہ کو ختم کرنا۔
اسلامی تعلیمات کی اشاعت بالخصوص برادارن وطن کو اس کی خوبیوں سے واقف کرانا، ان کے سامنے اس کی ہمہ گیری اور پوری انسانی برادری کے لیے باعث رحمت بتانا اور اسلام سے ان کی وحشت دور کرنا۔
اس تحریک کے بانی حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ (خلیفہ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ) تھے، جن کی سرکردگی میں ملک کے ممتاز علماء و مشائخ کے طویل مشوروں کے بعد یہ ادارہ قائم ہوا تھا، شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکیؒ نے اس کے مقاصد میں کامیابی کی دعائیں فرمائی تھیں، ملک کے علماء کرام اور صلحاء کی ایک بڑی تعداد نے اس تحریک سے اتفاق کیا تھا اور اس کی تقویت کے لیے حسب استطاعت جدوجہد کی تھی، ندوۃالعلماء کے مقاصد کی ترویج واشاعت کرنے والے ملک کے مشہور علماء یہ تھے
استاذ العلماء مولانا لطف اﷲ علی گڑھیؒ، علامہ شبلی نعمانیؒ، مولاناالطاف حسین حالیؒ، مولانا عبدالحق حقانیؒ، مولانا عبداﷲ انصاریؒ، مولانا سید محمد شاہ محدث رامپوریؒ، مولانا محمد فاروق چریاکوٹیؒ، مولانا خلیل الرحمن سہارنپوریؒ، مولانا محمد ابراہیم آرویؒ، مولوی رحیم بخشؒ، مولانا احمد حسن کانپوریؒ،مولانا شاہ سلیمان پھلوارویؒ، مولانا ظہور الاسلام فتحپوریؒ، شاہ محمد حسن الٰہ آبادیؒ، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانیؒ (سابق صدرالصدور امور مذہبی، حیدرآباد، دکن)، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور منشی اطہر علی کاکورویؒ ، مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ و مولانا فتح محمد تائب لکھنؤیؒ وغیرہ۔
ان بزرگوں کا پختہ عقیدہ تھا کہ اسلام ایک عالمگیر اور ابدی دین ہے، رہتی دنیا تک انسانوں کی رہنمائی اور اس کی دنیاوی اور اخروی کامیابیوں کا ضامن ہے، اور اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی اور ہر مشکل کا حل موجود ہے، اس لیے ذہن انسانی کے ارتقاء و تنزل اور اس کے تغیرات کی مختلف منزلوں سے اس کا سابقہ پڑنا، بدلے ہوئے حالات اور افکار میں رہنمائی کا فرض انجام دینا اور ہر دور میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو رفع کرنا اس کے لیے ایک قدرتی امر ہے، ایسے جامع ہمہ گیر اور جاوداں دین کے داعی اور اس کی تفہیم وتبلیغ کرنے والے افراد پیدا کرنے کے لیے ایسا نظام اور نصاب تعلیم مرتب کیا جانا چاہیے جس کا دائرہ برابر وسیع ہوتا رہے، جو ہر دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور زندگی کا ثبوت دیتا رہے، نظام تعلیم اسی وقت مفید اور کارآمد ہو سکتا ہے، جب وہ قدیم و جدید دونوں کی خوبیوں کا جامع ہو، اصول و مقاصد میں سخت اور بے لوچ، فروعی مسائل میں وسیع اور لچکدار ہو، ترقی پذیر ہو، زمانہ کی تبدیلیوں اور تقاضوں کے مطابق (اپنی روح، مقاصد اور اساسی علوم کی حفاظت کے ساتھ) بدلتا اور ترقی کرتا رہے، یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور اسی میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کا حل پوشیدہ تھا۔
ندوۃالعلماء کے ذمہ داروں نے محسوس کیا کہ یہ ضرورت اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ایک مثالی مدرسہ قائم کیا جائے، جس میں ایسے علماء تیار کیے جائیں جو بنیادی دینی علوم میں مہارت کے ساتھ اپنے دور کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہوں، قدیم علوم میں رسوخ کے ساتھ جدید ذہن کے شکوک و شبہات دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو ایک طرف عقائد وعبادات میں ایک اٹل پہاڑ، اور دوسری طرف علم وتحقیق اور پیش بینی میں ایک رواں دواں اور شیریں چشمہ ہوں، ایک طرف نصوص دین اور اس کی عزیمتوں کے لیے سرحد کے محافظ اور امانت کے نگراں ہوں تو دوسری طرف دین کی تبلیغ و تفہیم کے سلسلہ میں پرجوش مجاہد اور جدید ترین ذرائع سے لیس ہوں، جہاں دین کے حقائق ومقاصد کے بارے میں مصالحت یا نرمی کے روادار نہ ہوں، وہاں عصر جدید کے جائز تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی جمود وتعصب کا بھی شکار نہ ہوں۔
خدمت علم و دین کے سوا سو سال
اسی نیک مقصد کے لیے ندوۃ العلماء کے قیام کے چار ہی سال بعد ۱۳۱۵ھ مطابق ۱۸۹۸ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی گئی، اس کی تعمیروترقی میں ملت کے ممتاز اہل علم، صاحب فکر مخلص حضرات نے حصہ لیا، ان میں سرگروہ حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ (خلیفہ مولاناشاہ فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ) ان کے علاوہ دیگر اصحاب علم واختصاص علماء کی کوششوں سے ایک جامع اور متوازن نصاب تعلیم مرتب ہوا، اور بڑی حدت تک اس کا نفاذ عمل میں آیا، جس میں ایک طرف تو علوم دینیہ میں پختگی اور دوسری طرف عربی زبان وادب میں مہارت اور تیسری طرف علوم جدیدہ سے حسب ضرورت واقفیت کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ کی توجہ اور کوششوں سے علمی وتحقیقی ذوق کی طرف توجہ بڑھی او رمولانا سید عبدالحی حسنیؒ، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانیؒ اور دیگر معاصر علماء نے ندوۃ العلماء کی علمی ترقی میں نمایاں حصہ لیا، ان کے بعد علامہ سید سلیمان ندویؒ نے جو ایک طرف علامہ شبلی نعمانیؒ کے نامور شاگرد تھے اور دوسری طرف حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ تھے، اس ادارہ کی علمی سرپرستی کی، دار العلوم ندوۃ العلماء میں ہندوستان کے مشہور ماہرین علم ودین کی خدمات حاصل کی گئیں، اور ان کی وجہ سے نظام تعلیم وتربیت اور نصاب درس میں برابر اصلاح وترقی ہوتی رہی، ندوۃ العلماء نے اپنی ضرورت اور نظریہ کے مطابق اپنی درسی کتابیں تیار کرنے کی طرف توجہ کی اور بڑی حد تک کامیابی حاصل کی، ندوۃ العلماء علمی ودینی اور تدریسی میدانوں میں حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی سرپرستی ورہنمائی اور نظامت میں ترقی کے منازل طے کرتا رہا، یہاں تک کہ لکھنؤ میں مرکزی دار العلوم کے علاوہ ملک کے طول وعرض میں اس کے ملحقہ مدارس خدمت علم ودین انجام دے رہے ہیں۔
اﷲ کا شکر ہے کہ ندوۃالعلماء نے اپنی عمر کے سو سال بخیریت وخوبی پورے کرلیے، اس ایک صدی کی مدت میں دارالعلوم ندوۃالعلماء نے بڑی اہم اور قیمتی دینی وعلمی خدمات انجام ﷲ کا شکر ہے کہ ندوۃ العلماء نے اپنی عمر کے سوا سو سال بخیریت وخوبی پورے کرلیے، اس ایک صدی سے زائد کی مدت میں دار العلوم ندوۃ العلماء نے بڑی اہم اور قیمتی دینی وعلمی خدمات انجام دیں، قدیم وجدید کی کشمکش کو دور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور ندوی فضلا مسلمانوں کے ان دونوں طبقوں کے درمیان باہمی تعارف وتعاون کا سبب بنے، انھوں نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ دنیا سے الگ تھلک نہیں رہتے ہیں اور نہ زندگی کے سمندر میں کسی جزیرہ پر پناہ گزیں ہیں، چنانچہ ان میں ادباء، محققین،ملکی زبان میں لکھنے والے اور معاشرتی رہنما بھی ہوئے جو زندگی کی سرگرمیوں میں برابر شریک رہے، ان میں بعض ایسے بھی ہوئے جنھوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے ایک پورا کتب خانہ تیار کردیا، اور تن تنہا وہ خدمت انجام دی جو ایک پوری اکیڈمی کا کام ہے، اندرون ملک کے علاوہ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں اس کے فضلاء نے ملت کی علمی ودینی خدمات انجام دیں اور اﷲ کے فضل وکرم سے یہ سلسلہ روز افزوں ترقی پر ہے، ملک کے علمی اور زندگی کے اکثر شعبوں میں اس وقت ندوۃ العلماء کے فضلاء دینی وعلمی امتیاز کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں، اور بیرون ملک متعدد ممالک اسلامیہ میں اسلامی اداروں اور یونیورسٹیوں میں دینی وعلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔