یہ ہے ان حالات کا عطر وخلاصہ جن سے ملت اسلامیہ ہندیہ گذر رہی تھی، انہیں حالات میں ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں ایک ہمہ گیر علمی ودینی تحریک کی حیثیت سے ندوۃالعلماء کا قیام عمل میں آیا، اس تحریک نے بہت قلیل عرصہ میں پورے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی، ندوۃالعلماء کے جلسے جس شان وشوکت کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تحریک کی جڑیں اندرون ملک کتنی گہری اور اس کا دائرہ کار اور حلقۂ اثر کتنا وسیع تھا، یہ تحریک چند بنیادی مقاصد کے لیے سرگرم تھی، جن میں سے چند چیزیں یہ تھیں
علوم اسلامیہ کے نصاب درس میں بنیادی اصلاحات اور نئے نصاب کی تیاری۔
ایسے علماء تیار کرنا جو کتاب وسنت کے وسیع وعمیق علم کے ساتھ جدید حالات سے بخوبی واقف اور نبض شناس ہوں۔
اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا، نزاع باہمی کے فتنہ کو ختم کرنا۔
اسلامی تعلیمات کی اشاعت بالخصوص برادارن وطن کو اس کی خوبیوں سے واقف کرانا، ان کے سامنے اس کی ہمہ گیری اور پوری انسانی برادری کے لیے باعث رحمت بتانا اور اسلام سے ان کی وحشت دور کرنا۔
اس تحریک کے بانی حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ (خلیفہ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ) تھے، جن کی سرکردگی میں ملک کے ممتاز علماء و مشائخ کے طویل مشوروں کے بعد یہ ادارہ قائم ہوا تھا، شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکیؒ نے اس کے مقاصد میں کامیابی کی دعائیں فرمائی تھیں، ملک کے علماء کرام اور صلحاء کی ایک بڑی تعداد نے اس تحریک سے اتفاق کیا تھا اور اس کی تقویت کے لیے حسب استطاعت جدوجہد کی تھی، ندوۃالعلماء کے مقاصد کی ترویج واشاعت کرنے والے ملک کے مشہور علماء یہ تھے
استاذ العلماء مولانا لطف اﷲ علی گڑھیؒ، علامہ شبلی نعمانیؒ، مولاناالطاف حسین حالیؒ، مولانا عبدالحق حقانیؒ، مولانا عبداﷲ انصاریؒ، مولانا سید محمد شاہ محدث رامپوریؒ، مولانا محمد فاروق چریاکوٹیؒ، مولانا خلیل الرحمن سہارنپوریؒ، مولانا محمد ابراہیم آرویؒ، مولوی رحیم بخشؒ، مولانا احمد حسن کانپوریؒ،مولانا شاہ سلیمان پھلوارویؒ، مولانا ظہور الاسلام فتحپوریؒ، شاہ محمد حسن الٰہ آبادیؒ، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانیؒ (سابق صدرالصدور امور مذہبی، حیدرآباد، دکن)، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور منشی اطہر علی کاکورویؒ ، مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ و مولانا فتح محمد تائب لکھنؤیؒ وغیرہ۔
ان بزرگوں کا پختہ عقیدہ تھا کہ اسلام ایک عالمگیر اور ابدی دین ہے، رہتی دنیا تک انسانوں کی رہنمائی اور اس کی دنیاوی اور اخروی کامیابیوں کا ضامن ہے، اور اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی اور ہر مشکل کا حل موجود ہے، اس لیے ذہن انسانی کے ارتقاء و تنزل اور اس کے تغیرات کی مختلف منزلوں سے اس کا سابقہ پڑنا، بدلے ہوئے حالات اور افکار میں رہنمائی کا فرض انجام دینا اور ہر دور میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو رفع کرنا اس کے لیے ایک قدرتی امر ہے، ایسے جامع ہمہ گیر اور جاوداں دین کے داعی اور اس کی تفہیم وتبلیغ کرنے والے افراد پیدا کرنے کے لیے ایسا نظام اور نصاب تعلیم مرتب کیا جانا چاہیے جس کا دائرہ برابر وسیع ہوتا رہے، جو ہر دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور زندگی کا ثبوت دیتا رہے، نظام تعلیم اسی وقت مفید اور کارآمد ہو سکتا ہے، جب وہ قدیم و جدید دونوں کی خوبیوں کا جامع ہو، اصول و مقاصد میں سخت اور بے لوچ، فروعی مسائل میں وسیع اور لچکدار ہو، ترقی پذیر ہو، زمانہ کی تبدیلیوں اور تقاضوں کے مطابق (اپنی روح، مقاصد اور اساسی علوم کی حفاظت کے ساتھ) بدلتا اور ترقی کرتا رہے، یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور اسی میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کا حل پوشیدہ تھا۔
ندوۃالعلماء کے ذمہ داروں نے محسوس کیا کہ یہ ضرورت اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ایک مثالی مدرسہ قائم کیا جائے، جس میں ایسے علماء تیار کیے جائیں جو بنیادی دینی علوم میں مہارت کے ساتھ اپنے دور کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہوں، قدیم علوم میں رسوخ کے ساتھ جدید ذہن کے شکوک و شبہات دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو ایک طرف عقائد وعبادات میں ایک اٹل پہاڑ، اور دوسری طرف علم وتحقیق اور پیش بینی میں ایک رواں دواں اور شیریں چشمہ ہوں، ایک طرف نصوص دین اور اس کی عزیمتوں کے لیے سرحد کے محافظ اور امانت کے نگراں ہوں تو دوسری طرف دین کی تبلیغ و تفہیم کے سلسلہ میں پرجوش مجاہد اور جدید ترین ذرائع سے لیس ہوں، جہاں دین کے حقائق ومقاصد کے بارے میں مصالحت یا نرمی کے روادار نہ ہوں، وہاں عصر جدید کے جائز تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی جمود وتعصب کا بھی شکار نہ ہوں۔