مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
پیدائش ۱۹۳۵ء
مشہور مصنف وادیب وصحافی اور داعی ومعلم وخطیب مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ بن حضرت مولانا محمد ایوب اعظمی رحمہ ا للہ جامعہ مفتاح العلوم مؤ سے فراغت کے بعد ۱۹۵۲ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مزید تحصیل علم کے لیے آئے، اور یہاں کے اساتذہ حضرت مولانا شاہ محمد حلیم عطا سلونوی شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، مولانا ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی صاحب مصباح اللغات، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی وغیرہ سے علم وادب میں امتیازی حیثیت سے کسب فیض کیا، ان کے رفقاء درس میں مولانا سید محمد الحسنی مرحوم بانی مدیر’’ البعث الاسلامی‘‘، مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری، مولانا سید احتشام احمد ندوی، مولانا سید احمد علی حسنی ندوی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ں۱۹۵۴ میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہوئے، اور پھر استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۵۵ء میں جب ’’البعث الاسلامی‘‘ مولانا سید محمد الحسنی مرحوم نے لکھنؤ سے نکالا تو ان کے ساتھ شریک ادارت رہ کر اس کی توسیع اشاعت میں بڑا حصہ لیا، اور اپنے مضامین سے رسالہ کو طاقت پہنچائی۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی وفات کے بعد اس کے مدیر اعلیٰ ہوئے اور ان کے شریک ادارت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ہوئے، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ ادیب دوم کی حیثیت سیکلیۃ اللغۃ العربیۃ وآدابھا کی ترقی میں بڑا حصہ لیا اور ان کے مہتمم ہونے کے بعد ادیب اول قرار پائے، اور صدر شعبۂ عربی کی حیثیت سے گراں قدر خدمات پیش کیں، ان کے ندوۃ العلماء کے ناظم منتخب ہونے پر ۲۰۰۰ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم ہوئے، اور تاحال اس منصب پر فائز ہیں، اس منصب سے پہلے بھی وہ مشرف کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں، اپنی عربی تحریر وتقریر اور دعوتی وصحافتی خدمات سے وہ عالم عرب میں متعارف ومقبول ہیں۔ اور عالم اسلامی کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، ان کو زمانۂ طالب علمی سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ کی سرپرستی حاصل رہی، ان کے ہی ایماء سے انہوں نے نحو وبلاغت میں خصوصی استفادہ کے لیے ان کے استاد علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی رحمۃ اللہ کی خدمت میں کچھ وقت عراق میں گزارا اور شام بھی گئے، اس کے علاوہ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ۔دوسرے ممالک کے وہ اہم دعوتی سفر کرچکے ہیں، اور تصنیفات کا ایک بڑا ذخیرہ پیش کرچکے ہیں، جن میں ’’۴۸؍سال شفقتوں کے سائے میں‘‘ ان کی کتاب اس اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ایک جامع سوانح آگئی ہے۔