عید کی دوبارہ امامت

ایک مسجد میں دوبار عید کی نماز
نوفمبر 10, 2018
عید کی دوبارہ امامت
نوفمبر 10, 2018

عید کی دوبارہ امامت

سوال:ایک شخص حافظ قرآن ہے، اور نماز وروزہ کے ضروری مسائل سے بھی واقف ہے اور ایک مسجد کے پنجوقتہ مع جمعہ کے امام بھی ہیں، عیدالاضحی کے موقع پر اپنی متعین مسجد میں عیدالاضحی کی نماز پڑھاکر اور امامت کرکے پڑوس کے ایک گاؤں میں دوبارہ امامت کرتا ہے جبکہ یہ اقرار ہے کہ میں امامت کرچکا ہوں دوبارہ نہیں پڑھاسکتا، پھر بھی اس گاؤں کی امامت کی، اس پر بعض مقامی علماء نے بتایا ’لاتجوز صلوۃ المفترض خلف المتنفل‘

(۱) فإن أدرکہ فی الرکعۃ الثانیۃ کبر بلا افتتاح وتابع إمامہ فی الرکعۃ الثانیۃ یتبع فیھا رأی إمامہ لما قلنا فإذا فرغ الإمام من صلاتہ یقوم إلیٰ قضاء ما سبق بہ۔ بدائع الصنائع،ج۱،ص:۶۲۳

کے اصول کے مطابق نماز درست نہیں، لیکن ایک دوسرے عالم نے فرمایا کہ نماز ہوگئی۔ اس بنا پر کہ جمعہ وعیدین میں سجدہ سہو نہیں ہے عموم بلوی کی وجہ سے البتہ امام گنہگار ہوگا۔

(الف) دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور مفتی بہ ہے ؟

(ب) مذکورہ امام پر کیا کوئی کفارہ وغیرہ ہے؟

(ج) کیا مذکورہ شخص مستقل امام کے لائق ہے؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱لف:دریافت کردہ صورت میں مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، دوسرے امام کے پیچھے نماز ادا کرنی ہوگی، اگر پہلے دن موقع ملاتو اسی دن ادا کرنی ہوگی ورنہ دوسرے دن’ صلاۃ المفترض خلف المتنفل‘ والی عبارت سے استدلال صحیح ہے۔

درمختار میں ہے:

نیۃ المؤتم الاقتداء واتحاد مکانھا وصلاتھما(۱)

امامت کی شرطوں میں ایک یہ بھی ہے کہ مقتدی اور امام کی نماز ایک ہو۔

مذکورہ صورت میں امام کی نماز ادا ہوچکی تھی اب ان کی نفل تھی اور مقتدیوں کی واجب۔ اس لئے اقتدا صحیح نہیں ہوئی اور نماز ادا نہ ہوئی ، دوسرے دن ادا کرنی تھی۔ اگر اس دن بھی موقع نہ ملے تو بقرعید کی نماز تیسرے دن ادا کرنی ہوگی(۲)

ب،ج:مذکورہ امام پرکفارہ نہیں ہے،وہ امامت کے لائق ہے۔

تحریر: محمد ظفرعالم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی