اذان کے بعد تثویب کا حکم

اذان کے بعد تثویب کا حکم
نوفمبر 2, 2018
مکروہ اوقات کا اعلان
نوفمبر 2, 2018

اذان کے بعد تثویب کا حکم

۱-ہمارے یہاں رمضان المبارک میں عشاء کی اذان کے بعد فرض نماز شروع کرنے سے تقریباً چارپانچ منٹ قبل ایک آدمی قبلہ رو کھڑا ہوکر بلند آواز میں مثل اذان کے پکارتا ہے ’’الصلوۃ سنت التراویح رحمکم ﷲ‘‘ دومرتبہ۔ اس کے بعد وقت مقررہ پر نماز عشاء ادا کی جاتی ہے۔ ۲سنت، ۲نفل کے بعد تراویح نماز کے لیے اٹھنے سے قبل ’’فضل من ﷲ ونعمۃ ومغفرۃ ورحمۃ وعافیۃ والسلامۃ لاإلہ إلا ﷲ وﷲ أکبر ﷲ أکبر وﷲ الحمد‘‘ یہ کلمات ہر دورکعت کے سلام پھیرتے پڑھی جاتی ہے بلکہ جتنی کلمات پڑھی جاتی ہے مندرجہ ذیل وضاحت سے مذکور ہے۔

۲-بعد وتر سبحان ذی الملک والملوکت الخ تین بار۔اب کچھ لوگ ان تسبیحات کے قائل ہیں اور کچھ لوگ سبحان ذی الملک الخ کاقائل ہیں،دونوں میں بحث ومباحثہ ہوکر لڑائی ہوجاتی ہے وہ ان کو بدعتی کہتے ہیں یہ ان کو بدعتی کہتے ہیں، صحیح کیا ہے۔

ھــوالـمـصـــوب:

۱-صورت مسؤلہ میں نماز عشاء سے قبل اس طرح کا اعلان کرنے یا تراویح کی نماز سے قبل اس طرح کے الفاظ ادا کرنے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، اس طرح کے اعلان کو تثویب کہتے ہیں، جمہور کے نزدیک تثویب مکروہ ہے۔ فقہاء احناف میں بھی اختلاف ہے۔ بعض جواز کے قائل ہیں(۱)

۲-سبھی فقہاء تراویح میں ہر چاررکعت بعد جلسۂ استراحت کے قائل ہیں، اس دوران متعین طور پر کوئی تسبیح مشروع نہیں ہے، انفرادی طور پر کوئی تسبیح، استغفار، درود وغیرہ پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح خاموش رہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تسبیح یا دعا پڑھنے میں یہ خیال رہے کہ دوسروں کے حق میں خلل نہ ہو۔ سوالنامہ میں مذکور دعائیں وتسبیحات انفرادی طور پر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ اس کو دوسروں پر لازم قرار دینا اور بآواز بلند اجتماعی طور پر پڑھنا درست نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کے دور میں یہ امور نہ تھے۔

تحریر:ساجد علی                تصویب:ناصر علی ندوی