اذان کے بعد تثویب کا حکم

اذان کے بعد تثویب کا حکم
نوفمبر 2, 2018
اذان کے بعد تثویب کا حکم
نوفمبر 2, 2018

اذان کے بعد تثویب کا حکم

سوال:تثویب فی الفجر جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو اس کا طریقہ کیا ہونا چاہئے اور اگر ناجائز ہے تو حضرت ابوبکرؓ کی روایت کا کیا مطلب ہے، لصلٰوۃ الصبح ……الخ

ھــوالـمـصـــوب:

تثویب فی الفجر جائز نہیں ہے، متأخرین علماء کے نزدیک سوائے مغرب کے دیگر نمازوں میں بھی درست ہے، البتہ متقدمین علماء کے نزدیک صرف فجر میں جائز ہے، اور بقیہ نمازوں میں مکروہ ہے۔

صاحب ہدایہ نے متقدمین کا مسلک ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

والتثویب فی الفجر حی علی الصلوۃ حی علی الفلاح مرتین بین الأذان والاقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ …… والمتاخرون استحسنوہ فی الصلوات کلھا لظہورالتوانی فی الأمورالدینیۃ(۱)

فتاویٰ ہندیہ میں متاخرین کا مفتی بہ قول یہ ہے کہ سوائے مغرب کے دیگر نمازوں میں تثویب بہتر ہے:

والتثویب حسن عندالمتأخرین فی کل صلٰوۃ الافی المغرب(۲)

علامہ شامیؒ نے بھی متاخرین فقہاء کی رائے اور فتویٰ وہی لکھا ہے، فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

قال فی العنایۃ:أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والاقامۃ علی حسب ماتعارفوہ فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع إبقاء الأول یعنی الأصل وھو تثویب الفجر(۳)

اب رہی یہ بات کہ تثویب کا طریقہ کیا ہو؟ تو اس سلسلہ میں فقہاء نے صراحت لی ہے کہ ہر ملک وشہر میں وہاں کے عرف ورواج کے مطابق ہوگی یعنی جہاں کے لوگ نماز کی طرف متوجہ ہونے کے لئے جو اشارے سمجھتے ہوں انہی اشاروں پر الفاظ وکلمات کو اختیار کرنا چاہئے۔

فتاویٰ ہندیہ میں بڑی صراحت کے ساتھ مذکور ہے:

وتثویب کل بلدۃ علی ماتعارفوہ أمابالتنحنح أو بالصلاۃ الصلاۃ أو قامت قامت لأنہ للمبالغۃ فی الإعلام وإنما یحمل ذلک بماتعارفوہ(۴)

مذکورہ تفصیلات حضرت ابوبکر کی روایت کے خلاف نہیں ہیں اس لئے وہ روایت اپنی جگہ درست ہے۔

تحریر: محمدظفرعالم ندوی  تصویب: ناصر علی ندوی