امام سے متعلق متفرق سوالات

امام سے متعلق متفرق سوالات
نوفمبر 3, 2018
امام سے متعلق متفرق سوالات
نوفمبر 3, 2018

امام سے متعلق متفرق سوالات

سوال:ایک گاؤں میں جامع مسجد ہے، اس میں کوئی مستقل امام مقرر نہ ہونے کی بنا پر آئے دن اس گاؤں کی مسجد میں امامت کے متعلق جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے اتحاد ویکجہتی کی فضا قائم نہیں رہ پاتی ہے، فتنہ وانتشار پھیلتا رہتا ہے، بعض نااہل قسم کے لوگ عام طور پر علماء وحفاظ کی

(۱) رجل بنی مسجداً أو جعلہ ﷲ تعالیٰ فھو أحق الناس بمرمتہ وعمارتہ وبسط البواری والحصیر والقنادیل والأذان والاقامۃ والإمامۃ إن أھلا لذلک فان لم یکن فالرأی فی ذلک إلیہ۔ الفتاویٰ الہندیہ،ج۱،ص:۱۱۰

موجودگی میں امامت کرنے کے لئے آگے بڑھ جاتے ہیں، جنہیں تجوید ومخارج سے ادنیٰ بھی واسطہ نہیں ہوتا، حروف کے ردوبدل سے معانی بدل جاتے ہیں ، نیز وہ صلاح وتقویٰ سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ان نازک ترین حالات میں دیندار طبقہ کی اکثریت اور علماء کی جماعت نے اجتماعی مشورہ سے متفقہ طور پر ایک عالم دین شخص کو امام منتخب کیا جو شرعاً امامت کے اہل ہیں ، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد اسی گاؤں کے دوسرے عالم دین (جو سال بھر میں ایک یا دومرتبہ گاؤں پہنچتے ہیں) نے منتخب امام صاحب کو نماز کی نیت باندھ لینے کے بعد دھکا دے کر مصلیٰ سے پیچھے کردیا اور خود امامت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس عالم دین نے اپنے حق امامت کے لئے درج ذیل دلیلیں پیش کی ہیں۔

۱-مسجد کی بنیاد برسوں پہلے ہماری زمین پر ہمارے خاندان والوں نے رکھی تھی۔

۲-امامت وتولیت کا اعزاز اسی وقت سے ہمارے خاندان والوں کو حاصل رہا ہے۔

۳-علم وتقویٰ، دولت وسرداری اور خاندانی عظمت ہمیشہ سے ہمارے خاندان میں رہی ہے اور آج تک ہمارے خاندان کی ٹکر کا کوئی نہیں رہا۔

۴-اس بستی کا اصل باشندہ ہمارا خاندان ہے اور دیگر خاندان والے دوسری جگہ سے اس بستی میں آکر بس گئے ہیں اور وہ پچھڑے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

۵-دیگر سارے علماء اور عوام علم وفضل اور فقاہت وافتاء میں مجھ سے کمتر ہیں، میں مشکٰوۃ شریف، ہدایہ جلالین وغیرہ دسیوں سال سے پڑھا رہا ہوں۔

کیا ان صورتوں میں بھی مجھ سے اور میرے خاندان سے زیادہ کوئی امامت اور تولیت مسجد کا حقدار ہوگا؟ اگر کسی کو میری اور میرے خاندان کی امامت واقتدا پسند نہیں تو وہ اپنے اپنے دروازہ پر مسجد بنالیں۔ چنانچہ اس عالم دین کے اس غیرعالمانہ وغیرفقیہانہ حرکت سے پورے گاؤں میں انتشار کی کیفیت ہے۔ مصلیان کرام لڑائی سے بچنے کی خاطر مسجد کے بجائے اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر مجبور ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ذریعہ صراط مستقیم پر آنے والوں کی کثیر تعداد یہ کہہ کر ترک صلوۃ کررہی ہے کہ مسجد ہماری نہیں دوسروں کی ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں سوال یہ ہے

۱- انتشار سے بچنے کے لئے مستقل امام کا انتخاب شرعاً کیسا ہے؟ امام کے انتخاب میں اکثریت قوم کا اعتبار ہوگا یا اقلیت کی بات مانی جائے گی، درآں حال یہ ہے کہ اقلیت کا رجحان خود ہی امام بن جانے اور اپنے ہی خاندان میں امامت کے باقی رکھنے کا ہے، کیا اسلام میں حق امامت کا دارومدار خاندان، نسل، اور کسی جگہ کے اصل باشندہ ہونے پر ہے جبکہ قرآن نے ’ان اکرمکم عندﷲ اتقاکم ‘کا اعلان کیا ہے ،اگر خاندان ہی کا اعتبار ہے تو حضرت محمد ﷺ کے بعد خلافت وامامت کا حق حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے بجائے سب سے پہلے حضرت علیؓ ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ کو حاصل ہونا چاہئے تھا؟۔ امام کے انتخاب کا حق کسی مخصوص خاندان یا مخصوص جماعت کو حاصل ہوگا، یا اس کا فیصلہ مسجد کے جمیع مصلیان کرام اپنے اجتماعی اور اتفاقی مشورے سے کریں گے؟

۲-کیا مسجد وقف ﷲ ہوتی ہے؟ شریعت کی نگاہ میں اوقاف کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے کیا شرائط ہیں، کیا اموال وآراضی موقوفہ پر وقف کرنے والوں کی ملکیت علی حالہ نسلاً بعد نسل باقی رہتی ہے؟ اگر نہیں تو عالم صاحب کی یہ حرکت کس خانہ میں رکھے جانے کی مستحق ہے؟ چنے گئے امام صاحب سے یہ کہنا کہ جب تک گاؤں میں میں موجود رہوں تو خود میں یا میرے خاندان والے نماز پڑھائیں گے، آپ نماز ہرگز نہیں پڑھاسکتے ہیں، نیز میری عدم موجودگی میں میرے خاندان والے جس کو چاہیں امامت کے لئے آگے بڑھائیں جس کو وہ نہ چاہیں نہ بڑھائیں، ایسا کہنا شرعاً کہاں تک درست ہے؟ اگر کوئی قاضی صاحب باتوں سے مرعوب ہوکر اس طرح کا کوئی فیصلہ صادر کردیں تو کیا وہ درست ہوگا؟

۳-کیا شریعت میں منتخب امام کو نماز کی حالت میں دھکا دے کر پیچھے کردینے اور اس نام نہاد عالم دین کا خود امامت کرنے کے لئے آگے بڑھ جانے کا کوئی جواز موجود ہے؟ اس خودساختہ فقیہ ومحدث کا خاندانی عظمت وعلم، بزرگی وسرداری کا حوالہ دینا اور اپنے علمی تفوق کے سامنے کسی کو اہمیت نہ دینا کہاں تک درست ہے؟ امامت کرنے کے حقدار کون کون لوگ ہیں؟ کیاعلماء دین وحفاظ قرآن کی موجودگی میں حق امامت کے لئے صرف معمر ہونا اورمحض خاندانی امتیاز کا پایا جانا کافی ہے؟

ھـو المـصـوب

۱-انتشار سے بچنے کے لئے مستقل امام کا انتخاب لازمی ہے، استحقاق امامت واولیت میں سبھی برابر ہوں تو قوم کی اکثریت کا اعتبار ہوگا، امامت کا دارومدار خاندانی وجاہت پر نہیں بلکہ علم وعمل اور صلاح وتقویٰ پر ہے، اگر مسجد کا بانی معلوم اور موجود ہوتو امام مقرر کرنے کا اختیار خود بانی کو ہے ، اس کے نہ ہونے کی صورت میں متولی کو ہے اور متولی کے نہ ہونے کی صورت میں مصلیوں کو ہے، لیکن بانی یا متولی یا مصلی کا اختیار اسی وقت راجح ہوگا جبکہ لائق شخص مستحق امامت کو امام مقررکریں(۱)

۲-مسجد ﷲ وقف ہوتی ہے واقف اور اس کی نسل سے ملکیت ختم ہوجاتی ہے(۲)البتہ انتظام

(۱) رجل بنی مسجداً أو جعلہ ﷲ تعالیٰ فھو أحق الناس بمرمتہ وعمارتہ وبسط البواری والحصیر والقنادیل والأذان والاقامۃ والإمامۃ إن أھلا لذلک فان لم یکن فالرأی فی ذلک إلیہ۔الفتاویٰ الہندیہ،ج۱،ص:۱۱۰

(۲)قولہ ’’ویزول ملکہ عن المسجد‘‘ اعلم أن المساجد یخالف سائر الأوقاف عدم اشتراط التسلیم إلی المتولی عند محمد وفی منع الشیوع عن أبی یوسف وفی خروجہ عن ملک الواقف عند الإمام وإن لم یحکم بہ حاکم۔ ردالمحتار،ج۶،ص:۵۴۴

وانصرام کا اختیار باقی رہتا ہے، بشرطیکہ دیانت، صلاح وتقویٰ پایا جاتا ہو، خودساختہ امام صاحب کا مذکور عمل شرعاً درست نہیں ہے، جہالت پر مبنی ہے، ان کو اپنے اس عمل سے باز آجانا چاہئے۔

۳-امامت کی اہلیت رکھنے والا جب امامت کی جگہ پر آگیا تو اس کو اس جگہ سے ہٹانا درست نہیں(۱) خواہ وہ افضل واحق نہ ہو، اس لئے مقرر امام کو دھکادے کر مصلی سے ہٹانا صحیح عمل نہیں ہے اور خاندانی عظمت کا اظہار جہالت پر دال ہے۔ مذکور عالم کو ایسا عمل نہ کرنا چاہئے جو شریعت کے منافی ہو، اور قوم میں انتشار کا سبب بنے، کسی عالم کے لئے مذکور عمل ان کی شایان شان نہیں ہے۔

تحریر: محمدمستقیم ندوی               تصویب: ناصر علی ندوی