کیامکاتب کے بچوں کی فیس دوسرے لوگ زکوۃ کے مدسے ادا کرسکتے ہیں؟

زکوۃ،فطرہ کی رقم کوبذریعہ حیلہ مدرسہ میں صرف کرنا
ديسمبر 14, 2022
مدرسہ میں بورنگ کرانے کے لئے زکوۃ کی رقم دینا
ديسمبر 14, 2022

کیامکاتب کے بچوں کی فیس دوسرے لوگ زکوۃ کے مدسے ادا کرسکتے ہیں؟

سوال:ہماری ایک مسجد میںنماز کا کام پابندی سے ہورہا ہے، مگر مدرسہ نہیں ہے تو اس کے لئے کچھ امام اور مولوی صاحب نے مل کر محنت کی،مگر جیسے ہی ان کے ماں باپ سے فیس کا نام لیاگیاتو لوگوں نے اعراض کرنا شروع کردیا اور آخر کار بند ہوگیا، اور اس سے پہلے بھی کئی بار شروع کیا گیا تھا مگر اس وجہ سے بند کرنا پڑا تھا تو اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوںکو پڑھانے کے لئے مدرس کی فیس نہیں دے سکتے ہیں تو کیا ان لوگوں کے بچوں کی پڑھائی پر اگر کچھ اہل خیر حضرات زکوۃ کے مد سے مدرس کی تنخواہ یا فیس سیدھے مدرس کے ہاتھ میں رکھ دیں اور یہ کہیں کہ ہم لوگ جو دے رہے ہیں وہ یہ سمجھ لو کہ ان کے گھر سے فیس آئی ہے اور اس طرح سے ان لوگوں کے بچوں کاتعلیمی سلسلہ شروع کیا جائے تو کیا یہ صورت مباح ہوگی؟جبکہ بچوں کے والدین بظاہر زکوۃ کے مصارف میں نہیں آتے ہیں، اور یہ سارے بچے محلے کے ہی ہیں، کھانا پانی رہنے سہنے سے مدرس کو یامدرسہ کوکوئی مطلب نہیں ہے۔

ھــوالـمـصـــوب:

مسلمانوں کی آبادیوں میں مکاتب کاہونابہت ضروری ہے،تاکہ ہمارے بچے اوربچیاں دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہوسکیں،ان مکاتب کوچلانے کے لئے زکوۃ وصدقات واجبہ کے لئے دوسرے قسم کی رقوم کااکھٹاکرنے کی کوشش کی جانی چاہیے،فیس کانظام بھی جاری کیاجاسکتاہے،لیکن اگروہاں کے لوگ امدادوعطیات کی رقمیں مکتب کے لئے فراہم نہیں کرتے ہیں توبذریعہ مجبوری زکوۃ وصدقات واجبہ کی رقمیں تملیک شرعی کے بعدمدرسین کی تنخواہ وغیرہ میں دی جاسکتی ہے،فیس جاری کرنے کی صورت میں جن بچوں کے سرپرست مستحق زکوۃ ہوں ان کی فیس بھی مدزکوۃ سے جمع کرائی جاسکتی ہے،اورجن بچوں کے سرپرست مستحق زکوۃ نہیں ہیں وہ بچے اگربلوغ کی عمرکوپہونچ چکے ہیں اورخودصاحب نصاب نہیں ہیں توان کی فیس بھی زکوۃ کی رقم سے جمع کرائی جاسکتی ہے،بہرحال بچوں کو دینی تعلیم سے محروم کردینادرست نہیں ہے،مکتب کوجاری رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔

تحریر:مسعود حسن حسنی     تصویب:ناصر علی