فی سبیل اللہ اورمؤلفۃ قلوب سے متعلق چند سوالات

فی سبیل اللہ اورمولفۃقلوب کامطلب
نوفمبر 30, 2022
مستحق کوکتنی رقم دے سکتے ہیں؟
ديسمبر 5, 2022

فی سبیل اللہ اورمؤلفۃ قلوب سے متعلق چند سوالات

سوال:۱-زکوۃ کے مصارف ۸ ہیں ، کیا زکوۃ کی رقم کسی ایک مد یا سارے مدات پر صرف کی جاسکتی ہے؟

۲-قرآن کامقصدزکوۃ کے مد کو فی سبیل اللہ تک مخصوص کرنا ہوتا تو فی الجہاد کا استعمال ہوتا جہاد دل، زبان، قلم، مال کے استعمال سے ہوسکتا ہے تو پھر فی سبیل اللہ کے مفہوم میںتوسیع سے کیوں گریز؟

۳-تالیف قلوب کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنا کیساہے؟ کیا غیرمسلموں کو دین کی معلومات پہنچانے اور ان کو اپنا ہمنوا بنانے میں خرچ کرنا تالیف قلوب میں نہیں ہوگا؟

۴- مسلمان تاجر، صناع، ڈاکٹر، پروفیسر، سائنسداں کو بہتر مسلمان بنانے میں جو مصارف ہوں وہ فی سبیل اللہ میں آسکتے ہیں؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱-زکوۃ کی رقم کسی ایک مدپر یا مختلف مدات پر بیک وقت صرف کی جاسکتی ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

أیما صنف أعطیتہ من ھذا أجزأ عنک۔(۱)

۲-علماء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ فی سبیل اللہ کا مصرف عام نہیں بلکہ اس سے مراد مجاہدین وحجاج ہیں(۲)، آپ کے خیال میں قلمی ولسانی جہاد کرنے والے اسی طرح اور دیگر مجاہدین کو بھی شامل ہونا چاہئے اور فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم سے گریز کیوں ہے؟ اس سلسلہ میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اصطلاحی طور پر جن کو مجاہدین کہا جاتا ہے وہ میدان جنگ میں لڑنے والے ہیں اور بقیہ دیگر حضرات جو اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کسی بھی درجہ میں کرتے ہیں، یقیناً وہ بھی مجاہدین میں شامل ہیں لیکن ثواب واجر کے اعتبار سے ان پر مجاہدین کے احکام نہیں نافذ ہوںگے جیساکہ شہداء کا مسئلہ ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں جو شہداء ہوتے ہیں ان ہی پر شہید کے احکام نافذ ہوتے ہیں، ان کے علاوہ جن کو شہید کہا جاتا ہے وہ اجر وثواب کے اعتبار سے مثلاً طاعون وپیٹ کی بیماری میں مرنے والے یا چھت میں دب کر مرنے والے، یہ سب حکمی طور پر شہداء ہیں لیکن شہداء کے احکام ان پر نافذ نہ ہوں گے(۱)، معلوم ہوا کہ شرع کی اصطلاح میں جن کو مجاہد وغازی مانا گیا ہے زکوۃ کے مستحق وہی ہوںگے، ان کے علاوہ دیگر معاونین اسلام باعتبار اجر وثواب کے مجاہدین ہیں، احکام کے اعتبار سے نہیں، البتہ اگر یہ حضرات محتاج ہیں تو ان کو بھی زکوۃ دی جائے گی لیکن محتاجی کے شرط کے ساتھ(۲)، بلکہ محتاجی کی قید تو مجاہد کے لئے بھی ہے۔(۳)

۳- اب اسلام اس کا محتاج نہیں رہا ہے کہ غیرمسلموں کی تالیف کی جائے، حضرت عمرؓ نے اس مصرف کے سلسلہ میں فیصلہ دے دیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور اس پر صحابہؓ کا اجماع ہے(۴)، لہٰذا اب تالیف قلب کے لئے غیرمسلموں کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جائے گی۔

۴-یہ مصارف فی سبیل اللہ میں نہیں آسکتے،ا ورنہ علماء اسلام ہی فی سبیل اللہ میں آتے ہیں۔

تحریر: محمد ظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی