سوال:۱-محلہ میں ایک مدرسہ ہے جس میں عشروزکوۃ کی رقم بھی آتی ہے، اور دیگر چندہ بھی۔ہم نے مقامی امام صاحب سے سنا کہ اس رقم کو مدرسہ کی تعمیر اور اساتذہ کی تنخواہ پر صرف کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔دوسرے ایک مولوی صاحب نے کہا کہ حیلہ کرکے اس کی حرمت جاتی رہتی ہے؟
۲-ہم مدرسہ کے بیت المال کا پیسہ بینک میںرکھتے ہیں، بینک سے ہم کو جوسود ملتا ہے اس سے ہم مختلف جگہوںپر جہاں پر وہاں کی بستی والے بیت الخلاء کا انتظام نہیں کرسکتے ہیں، وہاں بیت الخلاء تعمیر کراتے ہیں اور اسی طرح مختلف رفاہی کاموںمیں اس رقم کو صرف کرتے ہیں جس میں ٹنکی بنانا ، وغیرہ شامل ہے۔ کیا یہ عمل شرعاً درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر واضح الفاظ میں اس کے مصارف کی نشاندہی فرمائیں۔
ھــوالمصــوب:
۱-صورت مسئولہ میں جہاں تک ممکن ہو زکوۃ کی رقم کو براہ راست مستحقین زکوۃ پر صرف کرنا چاہئے،حددرجہ مجبوری کی صورت میں زکوۃ کی رقم کو بذریعہ حیلہ دوسرے مصارف میں صرف کرسکتے ہیں(۱)، حیلہ کی اچھی شکل یہ ہے کہ طلباء پر فیس لازم کردی جائے اور ان کے محتاج سرپرستوں کوزکوۃ دی جائے کہ وہ طلباء کی فیس ادا کریں۔
۲-سود کی رقم بغیر ثواب کی نیت کے کسی غریب کو دے دی جائے، اس کے علاوہ کسی اور جگہ صرف کرنا درست نہیں۔(۲)
تحریر:ساجد علی تصویب:ناصر علی