ایسے مدرسہ میں زکوۃ دینا جہاں زکوۃ دینے والوں کے بچے زیر تعلیم ہوں

زکوۃ کی رقم کوبذریعہ حیلہ مدرسہ میں استعمال کرنا
ديسمبر 12, 2022
بورڈ سے ملحق مدارس کے لئے زکوۃ کاحکم
ديسمبر 14, 2022

ایسے مدرسہ میں زکوۃ دینا جہاں زکوۃ دینے والوں کے بچے زیر تعلیم ہوں

سوال:۱-مصارف زکوۃ میں ایسا مدرسہ بھی داخل ہے، جس میں صرف گائوں ہی کے بچے زیرتعلیم ہوں اور جس میں عصری علوم کے ساتھ دینی علوم کا انتظام ہو، اور دینی تعلیم دی جاتی ہو، مگر سارا خرچہ صرف زکوۃ سے ادا کیا جاتاہے، بچوںکے کھانے پینے، کتاب ، کاپی ولباس وغیرہ کی ذمہ داری مدرسہ پر نہیں ہے، جبکہ اس مدرسہ میں صاحب نصاب وزکوۃ دینے والے ہی کے بچے زیرتعلیم ہیں، تو کیا صاحب زکوۃ ایسے مدرسہ میں زکوۃ دے سکتا ہے یا نہیں؟

۲-جس گائوں، قصبہ، شہر کے مسلمان ایسے ہوں جو زکوۃ، فطرہ، چرم قربانی کے علاوہ دوسری رقم سے مدرسہ نہیں چلاسکتے، ایسی صورت میں کیا کریں،یہ زکوۃ اپنے اوپر خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

۳-جس قصبہ میں ایسے مسلمان ہیں جو صاحب نصاب ہیں، پھر بھی فطرہ ، صدقہ،چرم قربانی زکوۃ وصول کرکے اس سے مدرسہ چلاتے ہیں، اور اسی سے مدرسین کی تنخواہ دیتے ہیں، اور سامان مدرسہ بھی خریدتے ہیں،زمین، مکان وغیرہ جبکہ ان مدرسوں میں صرف انہیں کے بچے تعلیم پاتے ہیں، یتیم ونادار اور غریب بچہ کوئی نہیں ہے تو کیا زکوۃ کا پیسہ اس میں خرچ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور اس میں گائوں ہی کے بچے پڑھتے ہیں، جو صاحب نصاب کے بچے ہیں، جبکہ یہ لوگ کہتے ہیںکہ فی سبیل اللہ سے مراد یہی ہے ،یعنی اللہ کا راستہ یعنی ہمارا یہ پرائمری اسکول،مدرسہ بھی اس مصرف میں داخل ہے جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دینی معلومات رکھتے ہیں لیکن وہ بھی عوام کے کہنے میں آکریہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں، اور زکوۃ کا جو مصرف ہے جہاں دینا چاہئے وہاں تو دیتے نہیں ہیں، اور خود اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں، تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱-اگر غریبوں اور محتاجوں کے بچے اس ادارے میں نہیں پڑھتے ہیں تو وہاں زکوۃ دینا درست نہیں ۔

۲-اگر غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں تو اس میں زکوۃ کی رقم دینا اور اس رقم کو غریب بچوں پر صرف کرنا درست ہے۔

۳-تعلیمی ادارے فی سبیل اللہ کے مصداق نہیں ہیں، اس لئے مدرسین کی تنخواہ زکوۃ سے دینا جائز نہیں ہے۔

تحریر: محمدظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی

نوٹ:زکوۃ دینے والے اپنے بچوں یا مالداروں کے بچوں پر زکوۃ کا مال خرچ کریں گے، تو زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہ ہوگی، اگر زکوۃ کے علاوہ کوئی دوسری آمدنی مدرسہ کے پاس نہ ہو تو مالداروں سے تعاون کی اپیل کریں اور مالدار زکوۃ کے علاوہ عطیات منتظمین کو دیتے رہیں تاکہ مدرسہ بند نہ ہو اور ان کے بچے تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ (ناصر علی)

سوال مثل بالا

سوال:میں اپنے مال کی زکوۃ مدرسہ یا مکتب میں دیتا ہوں اور اس مدرسہ میں میرابچہ اوردوسرے غریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس زکوۃ کی رقم سے معلم کو تنخواہ دی جاتی ہے، ایسی صورت میں میرے بچہ کا وہاںتعلیم حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ھــوالمصــوب:

زکوۃ ایسے مدرسہ یاایسے ادارہ میںدی جائے جہاں غریب ونادار طلباء رہتے ہوں(۱)مثلاً جہاںان کے خوردونوش وغیرہ کاانتظام ہو،استاذ کوزکوۃ کے مال سے تنخواہ دینا جائز نہیں ہے، زکوۃ ادا نہ ہوگی۔(۲)

تحریر:مسعود حسن حسنی     تصویب:ناصر علی

نوٹ:مدرسہ کانظام درست کرائیں،اورمعلم کی تنخواہ زکوۃ کے علاوہ اعانت وغیرہ کی مدسے اداکریں، اگر مدرسہ کے ذمہ داران نظام درست نہیں کرتے ہیں،اورآپ کے بچہ کی تعلیم کاکچھ اورنظم ہوسکتاہے تو اپنے بچہ کووہاں تعلیم کے لئے نہ بھیجیں،اگرکوئی اورنظم ممکن نہیں ہے اوروہاں نہ بھیجنے سے بچہ کے تعلیم سے محروم ہونے کاخطرہ ہے تومجبوری میں وہاں تعلیم کے لئے بھیج سکتے ہیں،خوداپنی زکوۃ وہاں نہ دیں، اورجتنے بچے وہاں زیرتعلیم ہیں،معلم کی تنخواہ ان پرتقسیم کرکے ایک بچہ پرجورقم آتی ہووہ آپ زکوۃ کے مصرف میں صرف کریں۔