تعلیم اوررفاہ سے متعلق مختلف کاموں میں مال زکوۃ خرچ کرنے کاحکم

زکوۃکی رقم مدرسہ میںکس طرح خرچ کریں؟
ديسمبر 12, 2022
اساتذہ کی تنخواہ اورمکتب کی ضروریات میں زکوۃ کااستعمال
ديسمبر 12, 2022

تعلیم اوررفاہ سے متعلق مختلف کاموں میں مال زکوۃ خرچ کرنے کاحکم

سوال:ہمارے رفاہ عام کے ادارے ہیں جیسے بہرے اور گونگے بچوں کا اسکول، دماغی معذورین کے لئے اسکول، عربی مدرسہ، شعبۂ حفظ وقرأت، افضل العلماء کورس، یتیم خانہ، ٹیلرنگ اور اسپتال وغیرہ جن کے لئے کوئی گرانٹ نہیں اور جہاںمفت تعلیم دی جاتی ہے اور طلباء غریب مسلم اور غیرمسلم ہیں۔

اب مذکورہ بالا اداروں کے متعلق جواب طلب امور مندرجہ ذیل ہیں:

۱-ایسے اداروںمیں جہاں مسلمان اساتذہ غریب مسلم طلباء کو دینی اور دنیوی تعلیم دیتے ہیں تو ان اساتذہ کی تنخواہ میں، اس کے سخت ضروری اور معمولی فرنیچرو دیگر سخت ضروری (جیسے بجلی، کرنٹ، پانی، پاکی وصفائی اور عمارت کا کرایہ وغیرہ) اخراجات میں زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ ان مسلم غریب طلباء کا حال یہ ہے کہ ان کو مفت تعلیم نہ دی جائے تو وہ تعلیم اور تربیت سے پوری طرح محروم ہوجائیںگے۔

۲-ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے جس میں غریب مسلمان بچے زیر تعلیم ہیں، جن کو مالی وظیفے، مفت پڑھنے کی کتابیںاور مفت لباس،مفت کھانا اور نوٹ بکس دیے جاتے ہیں اور ان کی فیسیں بھی ادارے کی طرف سے دی جاتی ہیں، کیا ان پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۳-شعبۂ حفظ کے اساتذہ کی تنخواہ، طلباء کے کھانے اوردیگرضروریات پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے جہاں غریب طلباء ہی زیرتعلیم ہیں؟

۴-اسپتال جس میں غریب مسلمان اور غیرمسلم آتے ہیں جہاں مفت علاج اور دوائیاں دی جاتی ہیں ان میں ڈاکٹر اور دوسرے ملازمین کی تنخواہ، دوائوں کی خریدی اور اس کی ضروریات جیسے بجلی،پانی،پاکی وصفائی اور عمارت کا کرایہ وغیرہ) اخراجات میں زکوۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے یانہیں؟

۵-مفت ٹیلرنگ جہاںغریب مسلمان اور غیرمسلم لڑکیاں سلائی کا ہنرمفت میں سیکھتی ہیں جس کے ذریعہ معاش اور روزگاری کا بندوبست ہوجاتا ہے، کیا اس کی ضروریات جیسے بجلی، پانی، پاکی وصفائی اور عمارت کا کرایہ وغیرہ اخراجات میں زکوۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے یانہیں؟

۶-یتیم خانہ، جہاں مسلم معاشرے کے پس ماندہ غریب اور یتیم بچے رہتے ہیں اور ان کی تعلیم وتربیت قیام وطعام، کتابیں اور نوٹ بکس، لباس، تعلیم کی فیسیں، دوسری ضروریات جیسے بجلی،پانی،پانی وصفائی اور عمارت کا کرایہ وغیرہ) اخراجات میں زکوۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے یانہیں؟

۷-عالمی مقابلہ قرأت اور کل ہند انعامی مقابلے (حفظ، قرأت، اذان، تفسیر، فقہ، تقاریر اور اسلامی کوئز وغیرہ) جن کے ذریعہ مسلمان بچوں میں شوق وذوق پیدا ہوتاہے،اور علم دین حاصل کرنے کی طرف حوصلہ افزائی ہوتی ہے،ان میں شریک ہونے والے بیرونی (کل ہند) کے طلباء کو آمدو رفت کا خرچ دیاجاتا ہے اور قیام وطعام کا مفت انتظام کیا جاتا ہے اور نقد انعامات بھی دیئے جاتے ہیں اور فاضل جج صاحبان کو واجبی نذرانے بھی دیئے جاتے ہیں، کیا مذکورہ بالا اخراجات میں زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۸-مذکورہ بالا ادارے چلانے کے لئے جہاںزیادہ تر مسلم اور غیرمسلم مستفید ہوتے ہیں، ان کے لئے زمین کی خریدی یاعمارت کی تعمیر میں زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۹-ایک شخص جو مالدار تھا بدقسمتی سے مصیبتوں کا شکار ہوا، جس کے نتیجہ میں ساری دولت اور جائیداد ختم ہوچکی اور وہ مقروض ہوگیا، تو زکوۃ کی رقم ایسے شخص کو بطور قرض دی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۱۰-کوئی شخص غریب ہے اور بیمار ہے تو کیا اس کی بیماری کے اخراجات میں زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۱۱-سادات جو غریب اور مجبور ہیںاور ان کے لئے امداد کی کوئی دوسری صورت نہیںہے، تو ایسی حالت میں ان سادات کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟

ھــوالمصــوب:

۱-مذکورہ مصارف میں زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ہے، زکوۃ کے لئے مسلمان محتاج کی تملیک ضروری ہے، اور تملیک بھی بلاعوض ہونی چاہئے، اباحت کی صورت بھی کافی نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

وکذالک إذا اشتری بالزکاۃ طعاماً فأطعم الفقراء غذائً وعشائً ولم یدفع عین الطعام إلیھم لایجوز لعدم التملیک۔(۱)

ہاں اگر یہ اساتذہ بغیر کسی عوض کے یابہت معمولی تنخواہ پرتعلیم دیتے ہوں اور یہ مستحق زکوۃ بھی ہوں تو ان کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، ایسے ادارہ کے دیگر اخراجات کے لئے یہ صورت اپنائی جاسکتی ہے کہ غریب ویتیم بچوں کے سرپرستوں کو زکوۃ کا مالک بنایا جائے اور بچوں کی فیس میں وہ یہ رقم ادا کریںیا بالغ مسلمان بچوں نے ادارہ کے ذمہ دار کوان کی طرف سے زکوۃ وصول کرنے اورصرف کرنے کابراہ راست وکیل بنایاہوتوادارہ ہرمدمیں ضرورت کے مطابق زکوۃ کی رقم خرچ کرسکتاہے۔

۲-اگرمستحق زکوۃ طلبہ نے ایسے اداروں کوزکوۃ وصول کرنے اوران پرخرچ کرنے کاوکیل بنایاہوتوان مصارف پر زکوۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے۔

۳-مستحق زکوۃ طلباء کو غذائی اشیاء مالکانہ طور پر زکوۃ کی رقم سے دی جاسکتی ہیں، باقی دوسرے امور اس رقم سے انجام نہیں دیے جاسکتے ہیں، جواب نمبر۱کی روشنی میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔

۴-اسپتال کی عمارت کی تعمیر ملازمین کی تنخواہوں، بجلی پانی وغیرہ پرزکوۃ کی رقم صرف نہیںکی جاسکتی ہے،غریب مسلم مریضوں کوزکوۃسے خریدی ہوئی دوائیں دی جاسکتی ہے،حدیث میںہے:

تؤخذ من أغنیائھم فترد علی فقرائھم۔(۲)

اور نہ ہی زمین کی خریداری پر براہ راست یہ رقم صرف کی جاسکتی ہے:

وعلی ھذا یخرج صرف الزکوۃ إلی وجوہ البر من بناء المساجد والرباطات والسقایات وإصلاح القناطر، وتکفین الموتی ودفنھم أنہ لایجوز۔(۱)

۵-مذکورہ امور پر زکوۃ کی رقم براہ راست صرف نہیں کی جاسکتی ہے۔

۶-مذکورہ امور میں زکوۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے، جبکہ فقراء کو مالک بنادیا جائے۔

۷-مذکورہ امور میںزکوۃ کی رقم براہ راست نہیں دی جاسکتی ہے۔

۸-اس کا جواب نمبر ۴میں گزرچکاہے۔

۹-اسے زکوۃ کی رقم کامالک بنایاجاسکتاہے،زکوۃ بطورقرض دینے سے زکوۃ ادانہیں ہوگی۔(۲)

۱۰-مریض کودوایارقم کامالک بنادیاجائے،اوراس کے وکیل کی حیثیت سے ڈاکٹریااسپتال کے اخراجات کواداکریں۔

۱۱-سادات کو زکوۃ کی رقم نہیںدی جاسکتی ہے(۳)، ان کا دوسری طرح سے تعاون کیا جائے، اگر کسی دوسری صورت میں تعاون نا ممکن ہو تو بحالت مجبوری امام ابوحنیفہؒ کی ایک روایت پر عمل کرتے ہوئے زکوۃ کی رقم اسے دی جاسکتی ہے۔(۴)

تحریر:مسعود حسن حسنی    تصویب:ناصر علی