بنو ہاشم کے لئے زکوۃ

غریب سید زادی کی شادی کے لئے زکوۃ
ديسمبر 5, 2022
صدیقی کوزکوۃ دینا
ديسمبر 5, 2022

بنو ہاشم کے لئے زکوۃ

سوال:۱-’’بنی ہاشم‘‘ پر زکوۃ کی حرمت کے شرعی دلائل کیا ہیں؟

۲-اور کیا حالت ’’اضطرار‘‘ میں ’’بنی ہاشم‘‘ زکوۃ لے سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس گنجائش کے حدود کیا ہوںگے؟ نیز اس کے دلائل کیا ہوںگے۔

ھــوالـمـصـــوب:

دریافت کردہ صورت میں تفصیلی جواب مع دلائل درج ہے۔

۱-کتب احادیث میں مختلف روایتیں ہیں جس میں آپؐ نے اہل بیت کے لئے صدقہ کو حرام قرار دیا ہے، مثلاً حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسنؓ نے زکوۃ کی کھجور منھ میں رکھ لی تو آپ ﷺ نے اگلوادیا اور ارشاد فرمایا:

انا لا ناکل الصدقۃ۔(۱)

دوسری جگہ آپؐ نے فرمایا:

یابنی ھاشم إن اللہ حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخھم وعوضکم منہا بخمس الخمس۔(۲)

دوسری روایت میں ہے:

إن الصدقۃ لاتنبغی لآل محمد إنما ھی أوساخ الناس۔(۳)

اوراس طرح کی متعدد روایتیں ہیں جو بنی ہاشم کے لئے زکوۃ کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔

۲-اب سوال یہ ہے کہ بنی ہاشم کے لئے زکوۃ کی حرمت ہمیشہ ہمیش کے لئے باقی ہے یا یہ صرف عہد نبویؐ کے ساتھ خاص تھی، تو اس سلسلہ میں ائمہ فقہاء، علماء متقدمین اور علماء متاخرین کے مختلف اقوال وآراء ہیں۔ چنانچہ امام ابوحنیفۃؒ فرماتے ہیں، ہمارے زمانے میں ہر طرح کے صدقات بنی ہاشم کو دیئے جاسکتے ہیں، امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں بنی ہاشم ایک دوسرے کو زکوۃ دے سکتے ہیں:

قولہ’ولایدفع إلی بنی ہاشم‘ھذا ظاہر الروایۃ وروی أبوعصمۃ عن أبی حنیفۃؒ أنہ یجوز فی ھذا الزمان وإن کان ممتنعا فی ذلک الزمان، وعنہ وعن أبی یوسف أنہ یجوز أن یدفع بعض بنی ھاشم إلیٰ بعض زکاتھم۔(۱)

فی شرح الآثار للطحاوی رحمہ اللہ عن أبی حنیفۃؒ لابأس بالصدقات کلھا علی بنی ھاشم والحرمۃللعوض وھو خمس الخمس فلما سقط ذلک بموتہ حلت لھم الصدقۃ، قال الطحاوی: وبہ نأخذ وفی النتف:یجوز الصرف إلیٰ بنی ھاشم فی قولہ خلافاً لھما۔(۲)

حنابلہ میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ خمس باقی نہ رہنے کی صورت میں سادات کے لئے زکوۃ لینے اوردینے کوجائزقراردیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

وبنوھاشم إذا منعوا من خمس الخمس جاز لھم الأخذ من الزکوۃ وھو قول القاضی یعقوب وغیرھ من أصحابنا وقالہ أبو یوسف والاصطخری من الشافعیۃ لأنہ محل حاجۃ وضرورۃ۔(۳)

بنوہاشم کو زکوۃ دینے اور نہ دینے کے سلسلہ میں مالکیہ کے چار اقوال ہیں، چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے:

وللمالکیۃ فی إعطائھم من الصدقۃ أربعۃ أقوال:الجواز والمنع ثالثھا یعطون من التطوع دون الواجب رابعھا عکسہ لأن المنۃ قد تقع فیھا والمنع أولاھا۔(۱)

نقل الطحاوی عن أمالی أبی یوسف أنہ جاز دفع الزکاۃ إلیٰ آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم عند فقدان الخمس، فإن فی الخمس حقھم فإذا لم یوجد صح صرفھا إلیھم وفی’البحر‘ عن محمد بن شجاع الثلجی عن أبی حنیفۃؒ ایضاً جوازہ، وفی ’عقد الجید‘ أن الرازی أیضاً أفتیٰ بجوازہ،قلت: وأخذ الزکاۃ عندی أسھل من السؤال فأفتیٰ بہ أیضاً۔(۲)

حاصل یہ کہ موجودہ حالات میں سادات کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ، قاضی ابویوسفؒ، امام طحاویؒ، علامہ ابہری مالکیؒ، اصطخری شافعیؒ، امام رازیؒ، علامہ ابن تیمیہؒ اور ایک قول کے مطابق امام مالکؒ اور اکابر علماء ہند میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی رائے ہے۔

اضطراری حالات میں جوازپرسب کااتفاق ہے۔

تحریر: محمدظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی