سوال:۱-عمر نے زکوٰۃ کسی دینی ادارہ یا مکتب میں دیا ہے ۔ذمہ داران ادارہ اس رقم کو تعمیر یا ملازمین کی تنخواہ میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
۲-تملیک کیا ہے اور اس کی اصل کیا ہے؟
۳- ایسے مدرسہ یا مکتب میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟جہاں زکوٰۃ کے مستحق طلباء نہیں رہتے ہیں۔
ھــوالمصــوب:
۱-زکوٰۃ میں تملیک ضروری ہے۔ بغیر تملیک کے تنخواہ یا تعمیر بلڈنگ میں صرف نہیں کی جاسکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
إنما الصدقات للفقراء۔(۱)
اس سلسلے میں فقہاء اور مفسرین کا کہنا ہے کہ آیت میں لام تملیک پر دال ہے(۲)، لہٰذا بغیر تملیک کے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔(۳)
۲-تملیک کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مستحقین زکوٰۃ ہوں ان کو زکوٰۃ کا مالک بنا دیا جائے یا پھر ان کے وکلاء کو زکوٰۃ دی جائے۔
۳- زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی کیوں کہ ایسے مدارس ومکاتب غرباء کے وکیل نہیں ہیں۔
تحریر:مسعود حسن حسنی تصویب:ناصر علی