غیراقامتی مدارس کے لئے زکوۃ وصول کرناکیساہے؟

تملیک کے بعدمدرسہ کے لئے برتن اوررجسٹرخریدسکتے ہیں؟
نوفمبر 30, 2022
غلط چندہ کرنے والے کی امامت کاحکم
نوفمبر 30, 2022

غیراقامتی مدارس کے لئے زکوۃ وصول کرناکیساہے؟

سوال:زید چند سالوں سے ایک ایسے مدرسہ کے نام پر چندہ کرتا ہے اور لوگوں سے زکوٰۃ کی رقم وصول کرتا ہے جس میں نہ دارالاقامہ ہے اور نہ ہی طلباء کے لئے کسی طرح کے قیام وطعام کاانتظام ہے۔لوگوں کے بار بار دریافت کرنے پر اب ایک سال سے اس نے تقریباً آٹھ دس طلباء کو رکھ لیا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اب کیا ایسے مدرسہ میں زکوٰۃ وچرم قربانی دینا درست ہے جہاں نہ دارالاقامہ ہے اور نہ ہی طلباء کے لئے کسی طرح کے قیام وطعام کا انتظام ہے؟

۲۔اب ایک سال سے آٹھ دس طلباء کومدرسہ میں رکھ لیا ہے تو کیا گزشتہ چار پانچ سالوں سے جو زکوٰۃ وغیرہ اس نے وصول کی ہے کیا وہ زکوٰۃ ادا ہوگئی؟

۳۔ دس طلباء کی آڑ میں چار سوطلباء کے مطابق چندہ کرتے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟

۴۔ کیا زکوٰۃ دینے والے پر زکوٰۃ دینے سے پہلے ایسے مدارس کی تحقیق اوراس میں مدومصارف کی تفتیش کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں؟

ھــوالمصــوب:

۱۔زکوٰۃ وچرم قربانی کی رقم میں محتاج کی تملیک شرط ہے۔مذکورہ شرط کے مفقود ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔(۱)

۲۔ اگر تملیک پائی نہیں گئی تھی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔وکیل اس کا ضامن ہوگا، اگر محتاج طلباء کو ساری رقم دے دی ہے یا ان پر خرچ کردی ہے تو ادائیگی ہوجائے گی۔

۳۔ جھوٹ بول کر چندہ کرنا درست نہیں ہے۔(۲)

۴۔ زکوۃ دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوۃ کی رقم انہیں افرادیااداروں کودے جوزکوۃ کے مستحق ہیں،کسی تحقیق کے بغیرہرمانگنے والے کوزکوۃ دینے میں اس کااندیشہ ہے کہ غیرمستحقین وصول کرلیں،اوراصل مستحقین تک زکوۃ نہیں پہونچ سکے۔(۳)

تحریر: مسعود حسن حسنی    تصویب: ناصر علی