غلط طریقہ پرحاصل کی گئی چندہ کی رقم کوکیاکریں؟

اضافی تنخواہ کے ساتھ انعام
نوفمبر 30, 2022
زکوۃ کی وصولی سے تنخواہ لینا
نوفمبر 30, 2022

غلط طریقہ پرحاصل کی گئی چندہ کی رقم کوکیاکریں؟

سوال:۱-یہ تومجھ پر واضح ہوچکا ہے کہ کمیشن لینا درست نہیں،میںچندہ کیے ہوئے سارے پیسے کو ان کے مصرف میںادا کردینا چاہتا ہوں، فی الحال میرے گائوںمیں مکتب بھی نہیں چل رہا ہے، جس طرح کا مدرسہ بتاکر میںنے چندہ کیا تھا، اس طرح کا مدرسہ میرے گائوں میں قائم ہوبھی سکتا ہے اور قائم نہیں بھی ہوسکتا ہے، کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا ہے، اور آئندہ گائوں میں مدرسہ قائم ہونے کی امید پر مستحقین تک رقم پہنچانے میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔

۲-اگر میرے گائوںمیں اقامتی مدرسہ قائم ہوگیا اس کے اراکین یا جس مدرسہ میں اس رقم کو دوں گا اس کے ذمہ دار میرے وصول کردہ رقم میںکچھ یا نصف بطور محنت کی اجرت کے میرے لئے طے کردیں یا اس مدرسہ کے فنڈ میں سے کچھ رقم مجھے چندہ کرنے کی محنت کے عوض دیں تو کیا یہ پیسہ قبول کرنا درست ہوگا؟

۳- چندہ وصول کرنے میں رسید چھپوانے اور سفر میں پیسے خرچ ہوئے، بعینہ خرچ کا حساب تو نہیں ہے، کم سے کم خرچ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہ خرچ چندہ وصول کردہ پیسے میں سے وضع کیاجاسکتاہے یانہیں؟مثلاً کل رسید بیس ہزار کی کٹی،سفر خرچ اور رسید چھپوانے میںکم از کم تین ہزار روپے صرف ہوئے، اب پیسہ جو مستحق مدرسہ میں جمع کرنا ہوگا، بیس ہزار دینا ہوگا یا سفر خرچ وضع کرکے سترہ ہزار دیا جائے گا؟

۴-عوام نے تو غریب بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے چندہ دیا تھا، میں ان کا دیا ہواسارا پیسہ غریب بچوں کی تعلیم وتربیت میں دے رہاہوں،اس کے باوجود بھی کیا چندہ دہندگان سے ملاقات کرکے اصل واقعہ بتانا ضروری ہوگا ،یہ بڑا ہی دشوار کام ہے، اوّلاً تو میں ناسمجھی میںغلطی کرکے (اچھے مقصد کے لئے کیا، نکلا برا) کافی مالی خسارہ میں ہوں، دوسرے مدرسہ سے جاتاتوتنخواہ اور اجرت ملتی، وہ بھی گیا، اب سب کو تلاش کرنا اور ہزاروں میل کا سفر طے کرنا اس میں کافی پیسہ خرچ ہوگا۔ ان سب کے باوجود بہتوں کانام وپتہ معلوم نہیں۔ عیدگاہوںاور مساجدمیں بھی اجتماعی چندہ ہوا تھا، کس نے کیا دیاکچھ معلوم نہیں۔چندہ دہندگان مختلف شہروں اورگائوں کے تھے، تاجر، مسافر،راہ گیر مختلف قسم کے لوگ تھے،سب سے ملاقات کرنا ناممکن ہے، کچھ لوگوں کاپتہ معلوم ہے ان میں بھی چند لوگوںکاانتقال ہوگیاہے ، اورجو باحیات ہیں ان سے اصل واقعہ بتلائیں تو اولا پہلے ہی سے عوام مدرسہ کے سفیر سے شکوک وشبہات وغیرہ میں مبتلا ہیں۔اورچندہ دینا بھی نہیں چاہتے ہیں، سفراء سے اور بھی بدظن ہوجائیںگے، جس علاقہ میں چندہ کیا ہوں اس علاقہ میں تین چار سال میں نے مسجد میں کام کیا ہے،عوام مسجد سے کافی متاثر بھی ہیں، جس سے اور بھی زیادہ بداعتمادی اور بدظنی پیدا ہوگی اور لوگوں پر اس کا برا اثر پڑے گا اورمجھے بھی کافی ذلت ورسوائی ہوگی، پھر بھی اگر اخروی گرفت سے بچنے کے لئے میرا ان لوگوں سے مل کر اصل واقعہ بتانا ضروری ہے تو میں ایسا بھی کروںگا، مگر ان حضرات سے اصل واقعہ بتانے کی کیا شکل ہوگی، جن کا انتقال ہوچکا ہے؟ یا جن کو تلاش کرنا ناممکن ودشوار ہے؟کیا یہ تمام حضرات روز قیامت میرے دامن گیر ہوںگے؟ ان کے مواخذہ سے بری الذمہ ہونے کی کیا صورت ہوگی؟ مجھے کیا کرنا ہوگا؟ کیا صرف خدا سے توبہ واستغفار کافی نہیں؟

۵-آج سے چھ سال پہلے چندہ کی ہوئی،مثلاً کل بیس ہزار چندہ کی رقم میرے پاس تھی وہ رقم بیس ہزار ہے، اب اس کو مصرف میں دے رہا ہوں، لیکن چھ سال تک جو رقم میرے پاس رہی اس کو میں نے وقتاً فوقتاً اپنی ضروریات:کھانے،پینے،پہننے،اوڑھنے اور زراعت وغیرہ کرنے میں یہ سوچ کر لگادیا کہ جب مدرسہ قائم ہوگا اس میں یا جس مدرسہ میں جب یہ رقم دوںگا اپنی فلاں شئے فروخت کرکے چندہ والا سارا پیسہ واپس کردوں گا، زراعت کی زمین میری موروثی وذاتی زمین ہے، زراعت ہی میرا ذریعہ معاش ہے، اس میں فصل لگانے میں بھی ان پیسوں کا استعمال کیا تھا، اورایک فصل کی آمد سے روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے دوسری فصل لگائی جاتی ہے اور یہ تسلسل چلتا رہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ خالص انہیںچندہ والے پیسے سے یا ان پیسوں کو اپنے ذاتی پیسے میں شامل کرکے غذا یا لباس خریدا یازارعت وغیرہ جو بھی کام کیا گیا سب حرام وناپاک ہوگیا؟ اگر سب حرام وناپاک ہوگیا اور اتنے دنوں سے میں اس کو استعمال کرتا رہا تو پاکیزگی کے لئے کیا کرنا ہوگا اور اس کا تدارک کیسے کیا جائے گا؟

۶-ایک زمین فروخت ہورہی تھی چندہ والا پیسہ میرے پاس تھا، اور میں نے اس پیسے کو مستحقین تک واپس کردینے کے ارادے سے اسی پیسے سے اپنے لئے وہ زمین خرید ی تھی،اب جبکہ چندہ والی ساری رقم میں لوٹا رہا ہوں اور جتناپیسہ مذکورہ زمین خریدنے میں لگایا تھا وہ پیسہ بھی لوٹا رہا ہوںتو کیا یہ زمین میرے لئے جائز ہوگی؟ یا اس زمین کو بھی فروخت کرکے پیسہ دینا ہوگا؟

فی الحال اگر وہ زمین فروخت کی جائے تو خریدی ہوئی قیمت سے اگر کچھ پیسہ زیادہ ملے مثلاً دوہزار زیادہ مل جائیں اگر میرے لئے یہ زمین رکھنا جائز ہواتو اس دوہزار کا کیا ہوگا؟ کیوںکہ قیمت کی اس زیادتی کا سبب تو وہی چندہ والا پیسہ بنا، گرچہ میں نے اس پیسے کو واپس کردینے کے ارادے سے ہی کیوںنہ استعمال کیا تھا، مجھے کیا کرنا ہوگا؟

۷-چندہ دہندگان سے فطرہ، زکوۃ،امداد غریب طلباء کے لئے وصول کیا تھا وہ رقم میرے پاس چھ سال تک رہی،اب اسے مستحقین کو دے رہا ہوں، تو ان چندہ دہندگان کا فطرہ،زکوۃ،امداد کی ادائیگی اور ثواب چندہ دیتے وقت چھ سال قبل ہی مل گیا؟ یا جب میںمستحقین تک رقم پہنچا دوں گا اس وقت مل پائے گا؟پہلی شق میں مستحقین کی حق تلفی ہوئی کہ ان کے لئے دیا ہوا پیسہ ان کو چھ سال بعد مل رہا ہے اور دوسری شق میںچندہ دہندگان ومستحقین دونوں کی حق تلفی ہوئی کہ ان کے صدقات واجبہ کی ادائیگی اور ثواب اتنے دنوںبعد مل رہا ہے اور مستحقین کا حق چھ سال کی تاخیر سے مل رہا ہے۔

مذکورہ سوال کی وضاحت فرماتے ہوئے اس کی بھی وضاحت فرمائیں کہ اخروی گرفت سے بچنے اور بری الذمہ ہونے کے لئے کیاچندہ دہندگان و مستحقین دونوں سے معذرت چاہنا ضروری ہوگا؟ خدا سے توبہ واستغفار کافی نہیں ہے؟

۸-پیسے کی قدروقیمت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے،اب سوال یہ ہے کہ جتنا پیسہ وصول ہوا تھا اتنا ہی دینا ہوگا یا زیادہ کرکے دینا ہوگا؟

۹-ان چندہ دہندگان میں سے بعض زکوۃ دینے والے وہ لوگ ہیں جو پرانا چندہ بتانے کے موافق چندہ دیتے تھے، ان کے سوال کرنے پر کہ آپ کا پرانا چندہ ہے؟ یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنا؟ کہہ دیا تھا کہ اتنی ہے، انہوں نے اتنی رقم دے دی، جبکہ میرا کوئی پرانا چندہ نہیںتھا، ان کے بارے میں میرے لئے کیا حکم ہے؟

۱۰- اس چار سالہ چندہ وصولیابی کے سفر میں ایک صاحب نے چند ٹوپیاں دے کر فرمایاتھا کہ یہ آپ کے مدرسہ کے طلباء کے لئے ہے،ایک صاحب نے ایک کرتہ، پائجامہ اور ایک صاحب ایک قرآن خریدنے کے پیسے دے کر کہا کہ آپ اپنے مدرسہ کے حفظ کرنے والے طلباء کو دے دیںگے، ان اشیاء کے بارے میں میرے لئے کیا حکم ہے؟

کرتہ پائجامہ تو یوپی میں حفظ کرنے والے طالب علم کو دے دیا، کیا یہ میرا دینا صحیح ہوا؟ اور میں بری الذمہ ہوگیا؟ اگر نہیں تو مجھے کیا کرنا ہوگا، ٹوپی اور قرآن کا کیاکروں؟

اس طرح کے شبہات وخیالات کو سوچ سوچ کر میں کافی اداس ومایوس رہتا ہوں، لہٰذاآپ حضرات سے گذارش ہے کہ میرے لئے ایسی رہنمائی فرمائیں کہ جس پر عمل کرکے میں اس بھنورودلدل سے نکل سکوں۔

ھــوالمصــوب:

آپ کے سوالات کے جوابات شرع اسلامی کی روشنی میں درج ذیل ہیں:

۱-آپ اولاً حاصل شدہ چندہ کی رقوم کے مالکان سے رابطہ قائم کرکے اجازت حاصل کریں خواہ خطوط کے ذریعہ ہوں، اگر وہ اجازت دے دیں تو ان کی اجازت کے مطابق جہاں بتائیںوہاں رقوم دے دیں۔

۲-اگر مدرسہ گائوں میں قائم ہوسکے تو قائم کردیںاور اس میںساری رقوم جمع کردیں، لیکن آپ کا اس سے بطور کمیشن کچھ لینا جائز نہ ہوگا۔

۳-رسید اور سفر کے اخراجات آپ کے ذمہ ہوںگے، چندہ کی ہوئی رقوم سے یہ اخراجات نہیں لئے جائیںگے۔

۴-رقوم کے مالکان کو بتانا ضروری ہوگا اور توبہ واستغفار بھی لازم ہے، تاکہ عنداللہ مواخذہ نہ ہو، بتانے میں نہ آپ کی بدنامی ہوگی اور نہ ہی دیگر سفراء کی،بلکہ اس سے نیک نامی ہوگی، اور لوگوں پر اچھے اثرات مرتب ہوںگے، جن سے بہتر نتائج کے امکانات ہیں۔

اورجنہیں بتاناممکن نہیں ہے انتقال کی وجہ سے یاپتہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے،اس میں آپ معذورہیں،اللہ سے توبہ واستغفارکریں،اوران کی رقمیں اس مصرف میں خرچ کریں جن کے لئے انہوں نے دیاتھا۔

۵-یہ غلے وغیرہ تو حرام یا ناپاک نہیںہوئے، البتہ فصلوں اور دیگر اخراجات میں لگی ہوئی رقوم کو مالکان کی اجازت کے مطابق صرف کریں، ان غلطیوں کے تدارک کے لئے توبہ واستغفار لازم ہے۔

۶-اس زمین میں جو رقم چندہ کی لگی تھی اس کا لوٹانا ضروری ہے اور زمین آپ کی ملک ہوگی، احتیاط کی بات یہ ہے کہ زمین کی قیمت میں جتنااضافہ ہواہے اس کوبھی اسی مصرف میں استعمال کیاجائے،جس کے لئے چندہ کیاتھا۔

۷-ان رقوم میں زکوۃ کی ادائیگی مستحقین تک پہونچنے کے بعد ہوگی،البتہ دینے و الوں کو اس کا ثواب مل جائے گا۔ اس تاخیر کا سبب بننے کی وجہ سے آپ پر توبہ واستغفار لازم ہے اور یہی کافی ہے، کسی سے معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔

۸-جتنی رقم چندہ کیا تھا اتنی ہی کی واپسی ہوگی، زیادہ کی نہیں، واپسی میں تاخیر پر توبہ واستغفار کریں۔

۹-اس سلسلہ میں توبہ واستغفار کریں۔

۱۰-جو کپڑے آپ نے طالب علموں کو دے دئے خواہ جہاں بھی دئے ہوں وہ اپنے مصرف میں لگ گئے، اورجو ٹوپیاں وغیرہ آپ نے استعمال کی ہیں اتنی ٹوپیاں خرید کر آپ ان کے مصارف میں دے دیں بلکہ بازاری قیمت مستحقین میں دینا کافی ہے۔

۱۱-اداس اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیںہے، اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے، وہ معاف بھی کرے گا اور رحم فرمائے گا۔ آپ کی شکستہ دلی آپ کے لئے اچھی علامت ہے، خدا کی ذات سے مایوس نہ ہوں، ایسے ہی بندوں کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں تسلی دے رہا ہے:

قل یٰعبادی الذین أسرفوا علی أنفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ إن اللہ یغفرالذنوب جمیعاً۔(۱)

ترجمہ:آپ کہہ دیجئے اے میرے بندو!جواپنے آپ پرزیادتی کرگزرے ہیں ،اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں،بے شک اللہ تعالی تمام گناہوں کومعاف فرمادیتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بے حدمعاف کرنے والے اوربڑے ہی مہربان ہیں۔

تحریر:محمد ظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی