طاعون سے محفوظ رہنے کی دعا

دوسری امتوں کی نجات
أكتوبر 30, 2018
لفظ رحمانی کی نسبت
أكتوبر 31, 2018

طاعون سے محفوظ رہنے کی دعا

سوال :اگر طاعون پھلا ہو تو کیا اس کے دفعہ ہونے کی دعا کرنا جائز نہیں ہے؟ ایک عالم صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ حضور ﷺ نے دعا فرمائی ہے کہ اللّٰہم اجعل فناء امتی بالطعن والطاعوناور ایک حدیث سے ثابت ہے کہ طاعون ایمان والوں کے لئے رحمت ہے ،اور چونکہ جب شام میں اسلامی فوج میں طاعون پھیلا ہوا تھا تو حــضرت معاذ ؓ نے دعا فرمائی تھی کہ ﷲم آت معاذ أوأہلہ نصیبہم یہ تینوں حدیثیں مسند الامام احمد میں موجود ہیں ،لیکن امدادالفتاوی ج۴،ص:۳1۶ پر اس کے جائز ہونے کا فتوی درج ہے ۔کیا امداد الفتاوی کا جواب غلط درج ہوگیا ہے ؟ ِ

ھوالمصوب:

طاعون سے متعلق احادیث اور علماء کی تشریحات وتحقیقات پر غور کرنے کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ طاعون ایک وبا ہے ،جو کافروں کے حق میں عذاب اور مومنوں کے حق میں رحمت وشہادت ہے ،لہذا اگر کہیں یہ وبا آجائے تو اس کے دفع کی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ جائزہے ،کیونکہ فی الحال یہ ایک مصیبت ہے ،جس کے دفعیہ کی دعا کرنا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے ،اور اگر کوئی مومن اس میں مبتلا ہوجائے اور صبر کرے تو اس کے مآل اور نتائج کے اعتبار سے باعث رحمت و شہادت ہے ،طاعون کے وباء ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ نے مقام طاعون میں جا نے سے منع فرما دیا ،جیسا کہ بہت سی صحیح روایتوں سے ثابت ہے،من جملہ روایات کے ایک یہ ہے: عن النبی ﷺ انہ قال إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوہا(1) اس طرح کی احادیث یہ بتا تی ہیں کہ مقام طاعون میں جا نا ممنوع ہے ،جو اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس کے دفع کی دعا کرنا بھی جائز اور درست ہے ،اس لئے جہاں جانا ممنوع ہو اس سے دور رہنے کی دعا اور دوا نا جائز کیوں ہو؟البتہ جو مومن ا س میں مبتلا ہوجائے اس کے لئے صبر کرنا اور تقدیر وفیصلہ خداوندی پر راضی ہونا باعث رحمت اور شہادت ہے،علامہ ابن نجیم ؒنے اپنی مشہور کتاب الاشباہ والنظائر میں اصول وقواعد کو سامنے رکھتے ہوئے تمام علماء کی آراء اور گفتگو پر بحث کرنے کے بعد جو رائے لکھی ہے وہ یہی ہے کہ طاعون کے دفع کی دعا کرنا جائز اور درست ہے ،بلکہ اس کے لئے اجتماعی طور پر دعا کرنے کی اجازت لکھی ہے ،حالانکہ اجتماعی طور پر دعا کرنا بہت سے علماء کے نزدیک بدعت ہے ،اس کے با وجود طاعون سے دفع کے لئے اجتماعی دعاء کی اجازت ہے،علامہ موصوف فرماتے ہیں : قد علمت انہ یشمل الطاعون وبہ علم جواز الاجتماع للدعاء لکن یصلون فرادی رکعتین ینوی رکعتی دفع الطاعون(1) مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ دفع طاعون کے لئے دعا جائز ہے ،اب رہا یہ اشکال کہ مسند احمد کی جو روایتیں دعا سے متعلق ہیں ان کا محل کیا ہے ؟اس سلسلہ میں تمام روایات ،منشاء شریعت اور اصول دین سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان ادعیہ ماثورہ کا تعلق مآل ونتائج سے ہے ،یعنی نتائج کے اعتبار سے طاعون رحمت وشہادت ہے ،جس کے حصول کی حضور ﷺ نے دعاء فرمائی ہے ،لہذا دعا شہادت ورحمت کی ہے نہ کہ مرض ووباء میں مبتلا ہونے کی ،جہاں تک مولانا اشرف علی تھانوی کے فتوی کی بات ہے تو اس سلسلہ میں محقق بات یہی ہے کہ وہ جواز کے قائل تھے ان کاوہ فتوی جو آپ نے استفتاء میں درج کیا ہے صحیح درج ہے ،اندراج میں غلطی نہیں ہوئی ہے ،خود مولانا موصوف کے دوسرے فتوی سے اس کی توثیق ہوتی ہے (۲) تحریر: محمد ظفر عالم ندوی

تصویب:نا صر علی ندوی