حدیث روایت بالمعنی کرنے کی اجازت

عوامی جلسہ میں قرأت سبعہ میں قرآن پڑھنا
أكتوبر 30, 2018
جھوٹی حدیث بیا ن کرنا 
أكتوبر 30, 2018

حدیث روایت بالمعنی کرنے کی اجازت

سوال :کچھ اشخاص خیال کرتے ہیں کہ احادیث مشکوک ہیں، یا غیرمعتبر ہیں حالانکہ علم الرجال بیان کرنے والے کی تصدیق تو کرتا ہے مگر متنِ حدیث رسول ﷲ ﷺ کے ہی الفاظ نہیں ہوتے وہ بیان کرنے والے کے فہم اور سمجھ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس شکل میں ساری ہی احادیث وفقہ غیرمعتبر ہوجاتی ہیں۔ اس کا جواب ان نوجوانوں کو کیا دیا جائے جو بدقسمتی سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور ان کا ایمان خطرہ میں ہے۔ ِ

ھوالمصوب:

قرآن کی حفاظت کے سلسلہ میں ﷲ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ دراصل شرائع اسلامی کی حفاظت پر منطبق ہوتا ہے اور شریعت اسلامی کی حفاظت کے سلسلہ میں احادیث بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون(1) اور أطیعوااللّٰہ والرسول(۲) کا انطباق احادیث پر بھی ہوتا ہے، کیوں کہ اگر احادیث معتبر نہ ہوتیں تو ’’أطیعوا الرسول‘‘ کہنا بے معنی ہوتا۔ چنانچہ صاحب ’’السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی‘ لکھتے ہیں: إن ما وعد ﷲ من حفظ الذکر لا یقتصر علی القرآن وحدہ بل المراد بہ شرع ﷲ ودینہ الذی بعث بہ رسولہ وہو أعم من أن یکون قرآنا أو سنۃ ویدل علی ذالک قول ﷲ فاسئلوا اہل الذکر إن کنتم لا تعلمون أی أھل العلم بدین ﷲ والشریعۃ ولا شک أن ﷲ کما حفظ کتابہ حفظ سنتہ بما ہیألہا من أئمۃ العلم یحفظونہا(1) جہاں تک روایت بالمعنی کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں علماء کرام کے دو گروہ ہیں ،ایک گروہ تو اس کو ناجائز قراردیتا ہے ،اس گروہ میں علامہ ابن سیرین ؒ ،ثعلب ،ابو بکر الرازی اور قاسم محمد ،رجاء بن حیوۃ سے عدم جواز کی بات نقل کی گئی ہے ،جب کہ ابن عمر و ؓ سے بھی یہی مروی ہے ،اور طیبی نے الخلاصۃ فی أصول الحدیث میں شرح السنۃ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ امام مالک اور ابن عیےنہ کا بھی یہی قول ہے ،ان حضرات کی دلیل ایک تو وہ حدیث: نضر اللّٰہ امرأ سمع مقالتی فوعاہاوحفظہا وبلغہا فرب حامل فقہ الی من ہوأفقہمنہ(۲) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ حضرات کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ کمالات فصاحت وبلاغت سے اور جوامع الکلم سے متصف تھے ،اور بلاشبہ دوسرے شخص کے الفاظ آپ کے معانی کوکامل طور پر ادا نہیں کرسکتے (۳) جمہو ر علماء جوا ز کے قائل ہیں ،لیکن وہ اس شخص کے لئے جو روایت بالمعنی کرتا ہو سخت شرائط عائد کرتے ہیں ،او رحدیث کے سلسلہ میں کسی بھی تساہل کے روادار نہیں ،ان کی دلیل یہ ہے کہ الفاظ کا حفظ کرنا ممکن نہیں ہے ،اور اصل مقصود احکام کا استنباط ہے ،جو معنی سے حاصل ہوجائیگا ،صحابہ ؓ نے ایک ہی واقعہ کو کئی الفاظ میں نقل کیا ہے ،اورواقعہ بھی یہی ہے ،چنانچہ جمہور کا کہنا ہے کہ روایت بالمعنی کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ 1-عربی زبان سمجھنے پر پوری قدرت رکھتا ہو،الفاظ کے معانی سے واقف ہو ،الفاظ کے مابین فرق کو جانتا ہو ،ان کے ٹمپریچر سے واقف ہو ۔ ۲-عربی میں تعبیر کی پوری صلاحیت رکھتا ہو اور اس کو یقین ہو کہ وہ معانی ادا کررہے ہیں ،ورنہ اس پر حرام ہے کہ وہ بالمعنی روایت کرے ۔ ۳-اگر حدیث میں کوئی لفظ مشترک ،مجمل اور مشکل کی قبیل سے ہو تو اس کا بدلنا جائز نہیں ۔ ۴- اگر آپ کی حدیث تعبد کی قبیل سے ہے تو بدلنا صحیح نہیں ،مثلا ًاذان وغیرہ ،چنانچہ جو خطاب کے موقع اور عربیت کے اصول وضابطہ ،محتمل وغیر محتمل ،ظاہر واظہر،عام واعم کے فرقوں سے ناواقف ہواس کے لئے روایت بالمعنی کرنا حرام ہے : قال الغزالی فی المستصفی نقل الحدیث بالمعنی دون اللفظ حرام علی الجاہل بمواقع الخطاب ……الالفاظ أما العالم بالفرق بین المحتمل وغیر المحتمل والظاہر والاظہر والعام والأعم فقد جوز لہ الشافعی وابو حنیفۃ وجماہیر الفقہاء أن ینقلہ علی المعنی إذا فہمہ(1) وقال إبن الصلاح من لیس عالما بالألفاظ ومقاصدہا ولا خبیرا بما یخل معانیہا لا تجوز لہ الروایۃ بالمعنی اجماعا بل یتعین اللفظ الذی سمعہ وإن کان عالما بذلک فقد منعہ قوم من أصحاب الحدیث والفقہ والأصول وقالوا لایجوز الا بلفظہ وقال قوم لاتجوز فی حدیث النبی وتجوزفی غیرہ(۲) ویحل جواز روایتہ مختصرا اما اذا کان الراوی رفیع المنزلۃمشہورا بالضبط والإتقان بحیث لا یظن بہ زیادۃ مالم یسمعہ أو نقصان اسمعہ بخلاف من لیس کذلک(۳) مذکورہ جواب سے معلوم ہوا کہ اس طرح کی غلط فہمی کی گنجائش پرنہیں کیونکہ ایسے ہی رواۃ کی روایات مدار شریعت ہیں ،جو تحمل وادا ء روایت کے شرائط سے بھر پور متصف ہوں ،ان شرائط کی جانب مختصرا ً اوپر اشارہ کیا گیا ہے ،مزید تفصیل کے لئے اصول حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جائے ۔ تحریر: مسعود حسن حسنی

تصویب : ناصر علی ندوی