تعویذ سے متعلق دو حدیثوں کے درمیان تطبیق

’أطلب العلم ولو بالصین‘ کا مطلب
أكتوبر 30, 2018
’تواور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ‘کا مطلب
أكتوبر 30, 2018

تعویذ سے متعلق دو حدیثوں کے درمیان تطبیق

سوال :1-تعویذ لکھنے ،باندھنے اور لٹکانے کا کیا حکم ہے ،دو حدیثیں ہیں، ایک سے جواز اور دوسرے سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے ،دونوں کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہے : 1-من علق تمیمۃ فقد اشرک (رواہ احمد ) ۲-اذا فزع احدکم فلیقل اعوذ بکلمات ﷲ من غضبہ وعذابہ ومن شر عبادہ ومن ھمزات الشیاطین وأن یحضرون فانہا لن تضرہ وکان یلقنہا من بلغ من اولادہ ومن لم یبلغ منہم کتب فی صک وعلقہا فی عنقہ۔ ۲- جب اس دنیا میں ہر کام خواہ اچھا ہو یا برا ،سب خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، اور خدا نے انسان کی تقدیر کے فیصلے کردئیے ہیں ،تو پھر اس کا ذمہ دار انسان کو کیوں ٹھہرایا جا تا ہے ؟ ِ

ھوالمصوب:

1-صورت مسؤلہ میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ایسے تعویذات کا لٹکا نا اور ان کو مؤثر جاننا شرک ہے جن میں شرکیہ کلمات ہوں اور غیر ﷲ سے استمداد پائی جارہی ہو ،اور اگر ادعیہ ماثورہ یا قرآنی آیات پر مبنی تعویذات ہیں تو ان کے جواز میں کوئی کلام نہیں ،ان کو لٹکانا درست ہے(1) لیکن احترام کا خیال رکھنا لازم ہے ،یعنی پیشاب وپاخانہ کے اوقات میں اتار دینا ہوگا (۲) ۲-دنیا میں سارے امور ﷲ تعالی کی مشیت اور ارادے کے تحت پائے جاتے ہیں ،لیکن تمام امور پر ان کی رضـامندی لازم نہیں ،بلکہ اچھے کا موں میں اس کی رضامندی ہے ،اور برے کاموں سے وہ ناراض ہوتا ہے ،برے کام کرنے پر اپنے بندوں کو عذاب سے ڈرایا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ﷲ تعالی کی جانب سے ہر شئی کی تقدیر ہے ،لیکن اس تقدیر کا علم صرف باری تعالی کو ہے ،کسی انسان کو نہیں معلوم کہ اس کی تقدیر میں کیا ہے ،لہذا اس کو تو رسول ﷲ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کو ماننا چائیے ،کیونکہ وہی طریقہ ﷲ تعالی کی خوشنودی اور رضامندی کا طریقہ ہے ۔ تحریر: ناصر علی