زیادہ آبادی والے گاؤں میں جمعہ

زیادہ آبادی والے گاؤں میں جمعہ
نوفمبر 10, 2018
پینتیس گھروں پر مشتمل آبادی میں جمعہ
نوفمبر 10, 2018

زیادہ آبادی والے گاؤں میں جمعہ

سوال:ہمارے گاؤں سوہی پور میں بیس سال قبل نماز جمعہ ہوتی تھی لیکن ایک عالم کے مشورہ سے نماز جمعہ بند ہوگئی گزشتہ رمضان سے کچھ لوگوں نے پھر پڑھنا شروع کردیا ہے، بہت سے فتویٰ کے انتظار میں ہیں اور گاؤں میں چار کرانے کی دکانیں اور دوکپڑے کی ہیں، کل مسلمانوں کی تعداد ۸۱۹ ہے، دوسرے گاؤں سے لوگ بھی آتے ہیں کیا نماز جمعہ اس گاؤں میں جائز ہے؟

ھــوالــمـصــوب:

اولاً یہ جان لینا چاہئے کہ نماز جمعہ مسلک حنفی کے مطابق صرف شہروں یا قصبات ہی میں ادا ہوسکتی ہے یا ایسے بڑے گاؤں جو قصبات کے مانند ہوں ان میں بھی نماز جمعہ جائز ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے، نماز جمعہ کی ادائیگی ووجوب جمعہ کیلئے شہر کا ہونا ایسی شرط ہے جس پر تمام فقہائے احناف کا اتفاق ہے۔ فتح القدیر میں ہے:

لاتصح الجمعۃ الا فی مصر جامع أو فی مصلی المصر ولا تجوز فی القریٰ(۲)

ایک دوسری جگہ اسی میں ہے:

(۱) روی عن أبی حنیفۃ أنہ بلدۃ کبیرۃ فیھا سکک وأسواق ولھا رساتیق وفیھا والٍ یقدرعلی انصاف المظلوم من الظالم بحکم وعلم أوعلم غیرہ والناس یرجعون إلیہ فی الحوادث وھوالأصح۔ بدائع الصنائع،ج۱،ص:۵۸۵

(۲) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۷

لاجمعۃ ولاتشریق ولاصلاۃ الفطر ولا أضحی إلا فی مصر جامع أو فی مدینۃ عظیمۃ(۱)

علامہ شامی ردالمحتار میں تحریر کرتے ہیں:

قولہ وفی القہستانی……تائید للمتن وعبارۃ القہستانی تقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا أسواق قال أبو القاسم ھذا بخلاف…… وفیما ذکرنا إشارۃ الیٰ أنہ لاتجوز فی الصغیرۃ التی لیس فیھا قاض ومنبر خطیب (۲)

اور علامہ کاسانی ؒبدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعۃ وشرط صحۃ أدائھا عند أصحابنا حتی لا تجب الجمعۃ الا علیٰ أھل المصر ومن کان ساکنا فی توابعہ…… فلا تجب علی أھل القریٰ التی لیست من توابع المصر ولا یصح أداء الجمعۃ فیھا (۳)

اور جہاں کے لوگوں پر نماز جمعہ وعیدین واجب نہ ہو اور لوگ ادا کرتے ہیں تو ان کو منع کرنا چاہئے کیوں کہ ایسے گاؤں میں نماز جمعہ وعیدین مکروہ تحریمی ہے۔درمختار میں ہے:

وفی القنیۃ:صلاۃ العیدین فی القریٰ تکرہ تحریما أی لاشتغال بما لایصح لأن المصر شرط الصحۃ (۴)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر کس کو کہتے ہیں: فقہاء نے شہر کی مختلف تعریفیں کی ہیں مثلا شہروہ ہے

(۱) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۹

(۲) ردالمحتار،ج۳،ص:۷

(۳)بدائع الصنائع،ج۱،ص:۵۸۳

(۴)ردالمحتار ج۲،ص:۱۶۷

جہاں ہر قسم کے پیشے موجود ہوں، جہاں ہر دن ایک بچہ پیدا ہوتا ہو اور ایک آدمی مرتا ہو، وہ جگہ جس کی آبادی کا شمار مشکل ہو، وہ جگہ جو دس ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہو (۱) اسی طرح بڑے گاؤں کی تمیز کیسے ہوگی یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جواہرالفقہ میں دونوں کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں مسلم وغیرمسلم وغیرہ ملاکر تقریباً تین ہزار افراد بستے ہوں ورنہ وہ چھوٹا گاؤں ہے اور اہل افریقہ اس طرح فرق کرتے ہیں کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں کورٹ کچہری ہو اور اس کے اطراف میں تین ہزار افراد ہوں، لہذا ایسی جگہ میں نماز جمعہ وعیدین جائز ہے ورنہ نہیں (۲)

مذکورہ بالا تعریفات وشرائط کی روشنی میں آپ کے گاؤں سوہی پور میں نماز جمعہ وعیدین جائز نہ ہوگی اور جن دکانوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں ہونے کے لئے کافی نہیں ہیں اور دوسرے گاؤں والے جو آپ کے گاؤں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں تو ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے وہ ایک دوسرے گاؤں کے رہنے والے ہیں لہذا ان کا آنا مفید نہیں ہے۔

تحریر: محمد مستقیم ندوی              تصویب: ناصر علی ندوی

نوٹ:جہاں پر عرصہ دراز سے جمعہ قائم ہے اس کو باقی رکھا جائے کیوں کہ ہندوستان کے حالات کے لحاظ سے مسئلہ میں گنجائش ہے، البتہ ازسرنو ایسے گاؤں میں جمعہ شروع نہ کیا جائے۔