امام کی داڑھی سے متعلق ایک سوال

داڑھی کٹوانے والے کی امامت
نوفمبر 3, 2018
امام کی داڑھی سے متعلق ایک سوال
نوفمبر 3, 2018

امام کی داڑھی سے متعلق ایک سوال

سوال:اگر کوئی امام صاحب شرعی داڑھی نہ رکھتے ہوں اور قرآن پاک بھی صحیح نہ پڑھتے ہوں جس کی بنا پر مقتدیان کرام دوحصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور پوری بستی میں انتشار ہوجاتا ہے، ایک گروہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتا ہے اور دوسرا گروہ اس کے پیچھے نمازپڑھنے کو ناپسند کرتا ہے، تو اس امام کی امامت کا کیا حکم ہے۔ کیا اس کا اس حالت میں امامت کرنا درست ہے؟ اگر نہیں تو جواب وضاحت کے ساتھ عنایت فرمائیں اور یہ اختلاف امام کے شرعی داڑھی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کیا ان لوگوں کا اختلاف کرنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند کرنا کسی حد تک درست ہے؟

(۱)ولابأس بنتف الشیب وأخذ أطراف اللحیۃ والسنۃ فیھا القبضۃ ۔درمختار مع الرد،ج۹،ص:۵۸۳

(۲) ولا الأخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد۔ ردالمحتار،ج۳،ص؛۳۹۸

ھـو المـصـوب

مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے، یہ داڑھی اسلامی ہے، تمام انیباء علیہم الصلاۃ والتسلیم کی متفقہ سنت مستمرہ ہے، آنحضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’ اپنی مونچھوں کو چھوٹا کرو اور داڑھی کو گھنی کرو‘(۱) یعنی بڑھاؤ ۔ مقدار مسنون سے کم نہ ہو، اور وہ ایک قبضہ ہے(۲)واضح ہے داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت سنت مؤکدہ ہے۔ اس سے کم کرنا مکروہ تحریمی ہے اور یہ فعل فسق ہے، امامت کا منصب بہت عظیم ہے، داڑھی جیسی عظیم الشان سنت کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا اور مقدار مسنون کی رعایت نہ کرنا منصب امامت کے خلاف ہے، اس لئے امام صاحب پر لازم ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور مقدار مسنون کے مطابق داڑھی رکھیں۔ اگر اپنی مذکور حرکت سے باز نہ آئیں تو ان کی امامت مکروہ ہے ۔ ایسے شخص کو منصب امامت سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔ درمختار میں ہے:

أما الفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لایھتم لأمر دینہ وبأن فی تقدیمہ لإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا(۳)

اگر امام صاحب سے دین میں کوتاہی کی بنا پر مصلیان حضرات ان کی امامت کو ناپسند کرتے ہیں تو امام کو ایسی صورت میں امامت نہ کرنی چاہئے اس کے باوجود امامت کے منصب پر فائز رہتے ہیں تو ایسے امام کے بارے میں حدیث شریف میں وعید وارد ہوئی ہے:

عن أمامہؓ قال قال رسول ﷲ ﷺ ثلاثۃ لا تجاوز صلوتھم آذانھم: العبد الآبق حتی یرجع وامرأۃ باتت وزوجھا ساخط، وإمام قوم وھم لہ کارھون(۴)

(۱)انھکوا الشوارب واعفوا اللحی۔ صحیح البخاری،کتاب اللباس، باب اعفاء اللحی، حدیث نمبر:۵۸۹۳

(۲)وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ۔ صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب تقلیم الاظافر، حدیث نمبر:۵۸۹۲

ولابأس بنتف الشیب وأخذ أطرف اللحیۃ و السنۃ فیھا القبضۃ ۔درمختار مع الرد،ج۹،ص:۵۸۳

(۳) ردالمحتار،ج۲،ص:۲۹۹

(۴) سنن الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ماجاء من أم قوماً وھم لہ کارھون۔ حدیث نمبر:۳۵۷

دوسری حدیث میں ہے:

عن ابن عمر رضی ﷲ عنہ قال قال رسول ﷲ ﷺ ثلاثۃ لا یقبل ﷲ منھم صلاۃ من تقدم قوماً وھم لہ کارھون(۱)

لیکن مسلمانوں کا باہم انتشار مستحسن عمل نہیں ہے اور جنگ وجدال کی نوبت آجائے تو اسلام ایسے عمل کو پسند نہیں کرتا ہے، حکمت عملی سے انتشار کو ختم کیا جائے، اگر امام بااثر شخص ہے اور اس کو معزول کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اس کی اقتداء میں نماز ادا کریں۔ مقتدیوں کی نماز میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ ارشاد نبوی ہے:

صلوا خلف کل بروفاجر(۲)

تحریر: محمدمستقیم ندوی               تصویب: ناصر علی ندوی