گذشتہ سالوں کی زکوۃ

یوٹی آئی میں جمع رقم پرزکوۃ
ديسمبر 19, 2022
کرایہ پردئے جانے والے سامان پرزکوۃ کس طرح؟
ديسمبر 19, 2022

گذشتہ سالوں کی زکوۃ

سوال:۱-صاحب نصاب ہونے کے لئے کم سے کم کتنی رقم روپیوں کی صورت میں بنتی ہے؟

۲-اگر زید پانچ سالوں سے صاحب نصاب ہے مگر اس نے ان پانچ سالوں کی زکوہ ادا نہیں کی تو اس کی ادائیگی کس طرح کرے؟

ھــوالمصــوب:

۱-زکوۃ واجب ہونے کے لئے صاحب نصاب ہونا شرط ہے، صاحب نصاب اس شخص کو کہیں گے جس کی ملکیت میں کم ازکم ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کے مساوی قیمت ہو۔ موجودہ زمانہ کے اعتبار سے سونا تقریباً (87.48)گرام اور چاندی کا نصاب (612.36)گرام ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی لازم ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ مذکورہ مقدار پر سال پورا ہوگیا ہو۔ قیمت کسی صراف سے معلوم ہوسکتی ہے جو برابر گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔

۲-اگر زیدگزشتہ پانچ سالوں میں صاحب نصاب تھا اور اس نے زکوۃ ادانہیں کی ہے تو گزشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوۃ واجب ہے، اور اس کی ادائیگی کی شکل یہ ہے کہ پہلے سال پورے مال کی زکوۃ نکالے اور دوسرے سال گذشتہ سال کی زکوۃ منہاکرکے باقی مال کی زکوۃ نکالیں گے،اس کے بعدتیسری سال سابقہ دوسالوں کی زکوۃ منہاکرکے باقی رقم پرزکوۃ نکالیں گے،اسی طرح آئندہ سالوں کی زکوۃ نکالیں۔(۱)

تحریر:محمد طارق ندوی      تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال:ایک خاتون ۱۹۷۱ء؁ سے ساڑھے سات تولہ سونے کی مالک ہے، انہوں نے اب تک زکوۃ نہیں ادا کی، اب اداکرنا چاہتی ہیں، کیا شکل ہوگی؟

ھــوالـمـصـــوب:

اگر خاتون مذکور صرف ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی مالیت کے بقدر کی مالک ہیں تو اس صورت میں صرف ۱۹۷۱ء؁ کی زکوۃ ادا کرے گی، اس کے بعد کی زکوۃ نصاب کم ہونے کی بنا پر فرض نہ ہوگی، اور اگر ہرسال اس سے زائد سونا یا اس کی مالیت رہی تو ہرسال کی زکوۃ فرض ہوگی تاآنکہ نصاب سے کم ہوجائے۔

تحریر: محمدمستقیم ندوی                 تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال:۱-ایک صاحب ثروت آدمی ہے یعنی مالک نصاب ہے مگر شریعت سے عدم واقفیت کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال کی زکوۃ ادا نہ کرسکا، اب وہ زکوۃ ادا کرنا چاہتا ہے تو زکوۃ کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟

۲- چونکہ زید پر زکوۃ واجب تھی اس لیے قربانی بھی واجب ہوگی، مگر زیدنے گزشتہ پانچ سال سے قربانی کا فریضہ انجام نہیں دیا تو اس کی انجام دہی کی کیا صورت ہوگی؟

ھــوالمصــوب:

۱- گزشتہ سالوں کی زکوۃ نکالنے کی یہ صورت ہوگی کہ اولاً کل مال سے چالیسواں حصہ زکوۃ نکالے گا پھر جو رقم بچے اس سے بعد والے سال کی پھر جو رقم بچے اس سے اس کے بعد والے سال کی نکالے گا ،اسی طرح اخیرتک۔(۱)

۲-جتنے سالوں کی قربانی رہ گئی ہے ، اوسط درجہ کا اتنا ہی زندہ جانور صدقہ کردے یا اس کی قیمت ادا کرے۔اگر کوئی بڑا جانور ہے (جس میں سات حصے ہوتے ہیں) توہر سال کا ایک حصہ کے بقدر قیمت صدقہ کردے، صدقہ کیے ہوئے جانور یا اس کی قیمت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا ہے۔

تحریر:ساجد علی            تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال: ایک عورت ہے، اس کی دولڑکیاں ہیں،اس کے شوہر نے ۱۹۸۷ء؁ میں چودہ تولہ سونا اور دولاکھ روپئے نقد بینک میں جمع کیے، پھر اچانک اس کے شوہر کا ۱۹۹۳ء؁ میں انتقال ہوگیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد سے اب گھر چلانے والا کوئی نہیں ہے، اس کی پنشن ملتی ہے،جس سے تھوڑا بہت گھر کے اخراجات چلتے ہیں، اب دریافت کرنایہ ہے کہ اس عورت کو شوہر کے موجودہ سالوں یعنی ۱۹۸۷ء؁ سے ۱۹۹۳ء؁ تک کی زکوۃ نکالنی ہے کہ ۱۹۸۷ء؁ سے موجودہ سال تک کی زکوۃ نکالنی ہے؟

ھــوالمصــوب:

صورت مسئولہ میں اگر مرنے والے نے ان پرواجب زکوۃ کی ادائیگی کی وصیت کی ہوتوایسی صورت میں ۱۹۸۷ء؁ کی زکوۃ زیورات اورنقدی پرنکالی جائے گی،اس کے بعدکے سال کی زکوۃ پہلے سال زکوۃ نکالنے کے بعدجو مال بچاہے اس میں سے چالیسواں کے حساب سے نکالی جائے گی،اسی طرح ہرسال ،سال گذشتہ کی زکوۃ نکالنے کے بعدجومال بچتاہے اس مال پرحساب سے زکوۃ نکالی جائے گی،۱۹۸۷ء؁ سے ۱۹۹۳ء؁ تک اسی طرح ہوگا۔

اوراگرمرنے والے نے وصیت نہیں کی ہے تواس صورت میں ورثاء پرزکوۃ نکالنالازم نہیں ہے،لیکن اگر وہ خودنکالناچاہتے ہیں تاکہ مرنے والازکوۃ نہ اداکرنے کے گناہ سے بچ جائیں اوراللہ تعالی کے یہاں بری الذمہ ہوجانے کی امیدکی جاسکے تومذکورہ بالاتفصیل کے مطابق زکوۃ نکال دینابہترہے۔

اس طرح سال بہ سال زکوۃ نکالنے کے بعد ۱۹۹۳ء؁ میں جومال بچاہے وہ شوہرکے انتقال کی صورت میں وارثین کے درمیان بطورترکہ تقسیم ہوگا،اورپھرجس وارث کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال آئے گا،اس کی ذمہ داری ہوگی کہ سال گزرنے پراس میں زکوۃ نکالیں۔

تحریر:مسعود حسن حسنی    تصویب:ناصر علی