زکوۃ کااجتماعی نظام

زکوۃ کے استحقاق کے لئے عمرکی قیدنہیں
نوفمبر 28, 2022
صدقہ فطرکس پر واجب ہوتاہے؟
نوفمبر 29, 2022

زکوۃ کااجتماعی نظام

سوال:ہمارے شہر کے چند علماء کاکہنا ہے کہ زکوۃ انفرادی طور پر دی جائے، اجتماعی طور پر نہ دی جائے کیوں کہ حضورﷺاور خلفائے راشدین کے عہد میں زکوۃ کا کوئی اجتماعی نظام قائم نہیں تھا،مسلمان انفرادی طور پر زکوۃ ادا کرتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کس بنیاد پر مانعین زکوۃ کو کافر قرار دیتے ہوئے ان سے قتال کیا جبکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، ان کا کہنا صرف یہ تھا کہ وہ اپنی زکوۃ کی رقم دارالخلافت میں موجود بیت المال کو اد انہیںکریںگے۔

۱-حضورﷺاور خلافت راشدہ کے دور میں زکوۃ کا اجتماعی نظام قائم تھا یا نہیں؟

۲-ایک اسلامی حکومت میں زکوۃ اجتماعی طور پر داخل بیت المال کی جائے یا ہر شخص اپنے طور سے زکوۃ ادا کرنے کا مجاز ہے؟

۳-جہاں جہاں اسلامی بیت المال قائم نہیں ہیں کیا وہاں کے مسلمان اس بات کے مکلف نہیںکہ زکوۃ اجتماعی طور پر ادا کرنے کے لئے بیت المال قائم کریں؟

۴-قرآن مجید میں’’ أقیموالصلوۃ‘‘کے ساتھ ساتھ ’آتوا الزکاۃ‘کا ذکر آیا ہے۔ اقامت صلوۃ کہنے سے ہر مسلمان بآسانی سمجھ لیتا ہے کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے، پھر ’اٰتوا الزکوۃ‘ کے کیا معنی ہیں۔ انفرادی یا اجتماعی؟

۵-صدقہ وخیرات کو فرد پرچھوڑدیا گیا ، اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے اور اجر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیا زکوۃ کی ادائیگی کو بھی فرد پرچھوڑدیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جتنی چاہیں جب چاہے زکوۃ دیں؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱-اسلام اجتماعیت کو پسند کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے:

خذ من أموالھم صدقۃ تطہرھم وتزکیھم بہا(۱)

آپ ان کے مال میں سے صدقہ قبول کیجئے،تاکہ آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں اور انہیں دعادیجئے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺسے فرمایا کہ آپ ان سے زکوۃ وصول کریں، مسلمانوں کوانفراداً زکوۃ دینے کا حکم نہیں دیا گیا۔

اسی طرح

’اقیموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ‘

(۲)سے بھی اجتماعیت کا اشارہ ملتا ہے۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے:

أمرت أن آخذ الصدقۃ من أغنیائکم وأردھا فی فقرائکم۔(۳)

(۱) سورہ توبہ:۱۰۳

(۲) سورہ بقرۃ: ۴۳

(۳)إن اللہ افترض علیھم صدقۃ فی أموالھم توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم ۔صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ،باب وجوب الزکوٰۃ، حدیث نمبر:۱۳۹۵۔ صحیح مسلم کتاب الایمان ،باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام۔ حدیث نمبر:۱۲۱

مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں تمہارے مالداروں سے صدقہ وصول کروں اورتمہارے غریبوں میں صرف کروں۔

رسول اللہ ﷺ کایہ ارشاد بھی اجتماعیت کی تصدیق کرتا ہے۔خود حضورﷺ،خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل تھا، اسلامی کارندے زکوۃ جمع کرتے تھے اور مرکز کی طرف سے اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جاتا تھا ۔(۱)

۲-ایک اسلامی حکومت کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ زکوۃ جمع کرکے مستحقین تک پہونچائے۔

۳-جہاں جہاں زکوۃ جمع کرنے کا نظم نہیں ہے اور بیت المال نہیں قائم ہیں،وہاں کے مسلمان انفرادی طور پر اپنی زکوۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں ۔

۴-جواب اوپر دیا جاچکا ہے۔

(۱) عن ابن سیرین قال: کانت الصدقۃ ترفی أو قال تدفع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم أو من أمر بہ والی أبی بکر أو من أمر بہ والی عمر أو من أمر بہ والی عثمان أو من أمر بہ فلما قتل عثمان اختلفوا فکان منھم من یدفعھا الیھم ومنھم من یقسمھا وکان من یدفعھا الیھم ابن عمر قال قال ابن سیرین: ان قسمھا رجل فلیتق اللہ ولا یعتبن علی قوم شیئاً ثم یاتی مثلہ أو شراً منہ۔کتاب الاموال لابن عبید، ۱۲۔ص ۶۷۸کتاب المصنف لابن ابی شیبہ عن محمد، کتاب الزکوٰۃ باب من قال تدفع الزکوٰۃ الی السلطان  حدیث نمبر: ۱۰۲۹۴۔ قال محمد عوامۃ: ھذا مرسل واسنادہ صحیح ومراسیل ابن سیرین تقدم القول فیھا أنھا صحیحۃ،ج۶،ص:۴۷۵

حضرت ابوبکر کے زمانے میں اموال ظاہرہ (مویشی کی زکوٰۃ ،عشر وغیرہ)اور اموال باطنہ (سونا، چاندی، مال تجارت وغیرہ) دونوں کی زکوٰۃ بیت المال میں جمع کی جاتی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنے زمانہ میں لوگوں کو اجازت دی کہ اموال باطنہ کی زکوٰۃ خود مستحقین میں صرف کریں۔

واماالمال الباطن الذی یکون فی المصر فقد قال عامۃ مشائخنا: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طالب بزکوٰتہ وابوبکر وعمر طالبا وعثمان طالب زماناً ولما کثرت أموال الناس ورأی أن فی تتبعھا حرجاً علی الامۃ وفی تفتیشھا ضرراً بأرباب الاموال فوض الاداء الی أربابھا۔ بدائع الصنائع،ج۲،ص:۱۳۶
أما زکوٰۃ الاموال فقد کانت تحمل الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وعمر وعثمان ثم خطب عثمان فقال ھذا شھر زکوٰتکم فمن کان علیہ د ین فلیودہ ثم لیزک بقیۃ مالہ فجعل لھم أدائھا الی المساکین وسقط من أجل ذلک حق الامام فی أخذھا لأنہ عقد عقدہ ؔامام من أئمۃ العدل فھونافذ علی الامۃ۔أحکام القرآن للجصاص،ج ۳،ص:۱۹۸

۵-اجتماعی نظم نہ ہونے کی صورت میں انفرادی طور پر زکوۃ نکالنے کا اختیار ہے، البتہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ زکوۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے ایک اجتماعی نظام کی فکر کریں،اس لئے زکوۃ کی ادائیگی کا مقصد اجتماعیت کے بغیرپورا نہیںہوتا۔

انفرادی طورپرزکوۃ اداکرنے کی صورت میں یہ لازم ہے کہ جتنی مقدارمیں زکوۃ لازم ہواتنی مقدارمیں زکوۃ نکالیں،اس سے کم نہ نکالیں۔

تحریر: محمدطارق ندوی      تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال:فلاحی فاونڈیشن فلاحی کاموںکے علاوہ نظام زکوۃ کو ریاستی سطح پرمنظم کرناچاہتاہے،اس نظام کی اہم اکائی ہر مسجد پر قائم ہوگی، جس کی سرپرستی امام صاحبان/ مسجد میںموجود انتظامیہ کمیٹی کے صدور ہی کیا کریںگے، جن کو بستی کے تقریبا تمام افراد کی حمایت دستیاب ہوتی ہے، بستی کے تمام افراد، ان کی سرپرستی میں زکوۃ کو وصول اور اسی بستی میں تقسیم کرنے کے ذمہ دار نامزد/منتخب کیا کریںگے۔ اس نامزد یا منتخب ہوئے فرد کی تقرری فلاحی فائونڈیشن کا مرکزی صدر کیا کرے گا، اس طرح ایک کامل نظم کے تحت اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ فلاحی فائونڈیشن کے ساتھ ایک جید مفتی ساتھ رہا کرے گا جس کی رہنمائی میں زکوۃ کی تقسیم کاری کو شرعی حدود کے مطابق کیے جانے کو ممکن بنایاجاسکے گا۔

فلاحی فائونڈیشن چاہتا ہے کہ آپ اپنی رائے شرعی تقاضوں کے مطابق دیں۔ آیا کہ اس طرح نظام زکوۃ کو اسلامی حکومت کی غیرموجودگی میںقائم کرنا اسلامی مفاد میں ہے۔ بستی کے تمام افراد امام صاحب یاصدر انتظامیہ کمیٹی کی سرپرستی میں زکوۃ کی وصولی اور تقسیم کے لئے ذمہ دار کی نامزدگی/ انتخاب کرے گی ، کیا اس ذمہ دار کو اس کام کا معاوضہ زکوۃ کی رقم سے دیا جاسکتا ہے یا اس کے معاوضے کے لئے دوسرے مدات کا استعمال کرنا لازمی ہوگا؟فلاحی فائونڈیشن اس مقامی مہتمم کو بستی کے فقراء اور مساکین کا وکیل بنانا چاہتا ہے۔

براہ کرم ہمیں اپنی شرعی رائے سے مطلع کریں۔ خاص کر مندرجہ سوالات کا تفصیلاً جواب لکھنے کی ضرورت ہے۔

۱-کیا اسلامی حکومت کی غیرموجودگی میںریاستی سطح پر اس کام (یعنی زکوۃ کی وصولیابی اور تقسیم کاری) کو ہاتھ میں لیا جاسکتا ہے؟

۲-اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے، تو اس سلسلہ میں اس کام کو نبھاتے وقت کون سے شرعی حدود/تقاضے پورا کرنے کی ضرورت رہے گی؟

۳-اگر جواب ’نہیں‘ میں ہے تو اس کے متعلق احادیث/ قرانی آیات کا تفصیلاً ذکر کریں۔

۴- کیا کسی محتاج/مسکین کو زکوۃ کی رقم دینے کی کوئی حد رسول اللہ ﷺ نے مقرر کی ہے یا یہ کہ ادارہ خود بھی رقم کی حد کو مقرر کرسکتا ہے یا یہ رقم محتاج کی ضرورت کے مطابق مقرر کرنا ضروری ہے؟

۵-کیا زکوۃ کی رقم اس بستی میں تقسیم کرنا شرعی طور پر ضروری ہے جس بستی میں جمع کی گئی ہو، بستی میںمحتاج اور مساکین کی غیرموجودگی میں کیا ادارہ یا بستی کا ذمہ دار اس رقم کو کسی اور بستی یا کسی دوسرے ایسے ادارے کی طرف جہاں مساکین/محتاج ہوں، کی طرف منتقل کرسکتا ہے؟

ھــوالمصــوب:

۱-شہری یا محلہ واری سطح پر اگر زکوۃ کے نظم کے لئے کوئی ادارہ قائم کیا جاتا ہے جو زکوۃ دینے والوں سے رضاکارانہ طورپر بلاجبرواکراہ زکوۃ وصول کرکے مستحقین پر تقسیم کردیںتو شرعاً ایسا کرنا مستحسن ہے۔ ( ۱)

(۱)عن ابن عمر قال: ادفعوا صدقات أموالکم الی من ولاہ اللہ أمرکم فمن بر فلنفسہ ومن أثم فعلیھا۔

السنن الکبری،کتاب الزکوٰۃ،باب الاختیار فی دفعھا الی الوالی۔ حدیث نمبر:۷۳۸۱

فإن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث المصدقین الی أحیاء العرب والبلدان والآفاق لأخذ ===

۲۔اس کے لئے ضروری ہے کہ زکوۃ وصول کرکے مستحقین پر تقسیم کرنے کی ذمہ داری لینے والے قابل اعتماد اور دیندار،مسائل شریعت سے پوری طرح واقف لوگ ہوں اور یہ اطمینان ہوکہ یہ لوگ صحیح مصارف پر پوری ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ خرچ کریںگے۔(۱)

۳۔جواب ہاں میں ہے ،لہذا اس سوال کے جواب کی ضرورت نہیں ہے۔

۴-کسی محتاج ومسکین کواس کی ضرورت کے مطابق زکوۃ دی جاسکتی ہے،یہ رقم نصاب سے کم ہو،کسی ایک فردکو نصاب سے زائد دینا مکروہ ہے۔(۲)

۵-اس بستی میں مستحقین زکوۃ کی موجودگی میں بہتریہ ہے کہ زکوۃ کی رقم پہلے ان پرخرچ کی جائے، اوران سے بچنے کی صورت میں یااس آبادی میں محتاج ومساکین کی عدم موجودگی میں اس رقم کو دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں (۳)لیکن زکوۃ کے مصرف میںہی رقم کو خرچ کرنا ضروری ہے۔

تحریر:محمد مستقیم ندوی                 تصویب:ناصر علی