تعلیمی ورفاہی کاموں کے لئے زکوۃ کااستعمال

چھت بنوانے کے لئے زکوۃ مانگناکیساہے؟
ديسمبر 19, 2022
زکوۃ کی تنظیم کے لئے بیت المال کانظام
ديسمبر 19, 2022

تعلیمی ورفاہی کاموں کے لئے زکوۃ کااستعمال

سوال:عرض ہے کہ رجسٹرڈ شدہ ہماری ایک ایجوکیشن (تعلیمی) سوسائٹی قائم ہے جو محدود پیمانے پرلوگوں کی خدمت کرتی ہے،امدادی کاموںکو اجتماعی طورپر مزید وسعت دینے کے لئے ہماری سوسائٹی کے زیرانتظام ایک بیت المال کا قیام عمل میں آچکاہے، ہم تمام اراکین سوسائٹی بیت المال کے اس اجتماعی نظام کو قرآن وسنت اورشریعت کی روشنی میںنہایت دیانتداری کے ساتھ روبہ عمل لانا چاہتے ہیں، اس لئے آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ قرآن وسنت واحادیث نبویؐ کی روشنی میں تحریراً ہماری رہنمائی فرمائیں۔

درج ذیل مدات یا امور میںزکوۃکی رقم کا استعمال جائز ہے یا نہیں، تاکہ جانے انجانے میں ہم سے کوئی لغزش نہ ہوجائے اور بارگاہِ رب العالمین میںگنہگار نہ ہوں۔ ذیل میںمصارف یا مدات درج ہیں:

۱- عام رواج کے تحت مسلمان اپنی پوری زکوۃ رمضان المبارک کے مہینے میں نکالتے ہیں، ظاہر ہے کہ قائم شدہ بیت المال میںرمضان المبارک میںکافی رقم زکوۃ کی جمع ہوجاتی ہے، تو رمضان میںجمع زکوۃہم کب تک صرف کرسکتے ہیں یعنی کتنے عرصہ میںوہ رقم مستحقین میں تقسیم ہوجانی چاہئے ؟

۲-مستحق،یتیم،بیوہ، اپاہج اور بوڑھے افراد میں زکوۃ کی رقم سے ماہانہ وظائف کی صورت میں مدد کی جاسکتی ہے؟

۳-مستحق وبے گھر مسلمانوںکی رہائش کے لئے مدد یا رہائش گاہ کی تعمیر کے لئے مدد کی جاسکتی ہے؟

ب:دور حاضر کے سودی/بلاسودی مقروض مسلمانوں کی مدد کی جاسکتی ہے؟ یا کہ انہیں اس کے لئے بیت المال سے قرضۂ حسنہ دیاجاسکتاہے؟

۴-مستحق بچوں کومفت کاپیاں، کتابیں، اسکول فیس، یونیفارم کا خرچ، گھر تا اسکول آمدورفت کا خرچ اور دیگر تعلیم کے لئے اشیائے ضروری بیت المال سے فراہم کی جاسکتی ہیں؟

۵- موجودہ دور میں چونکہ تعلیم اور بالخصوص فنی وپیشہ ورانہ تعلیم بے حد مہنگی ہوگئی ہے،ایسی صورت میں مستحق طلباء وطالبات کوزکوۃ کی رقم میں سے تعلیمی وظائف دیئے جاسکتے ہیں؟

۶-مستحق ضرورت مند مسلمانوں کو تجارت یا ملازمت کے لئے بیت المال سے بطور امداد رقم دی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس مقصد کے لئے قرض حسنہ کی کوئی گنجائش ہے؟

۷-اگر جمع شدہ زکوۃ کی رقم محفوظ رکھنے کی اجازت ہے توکیا اس رقم کو سودی بینک میں رکھاجاسکتاہے؟اور اگر اس سے بینک میںسود ملے تو اس سود کی رقم کا استعمال کیسے ہو؟

۸-مستحق ومجبور بیمارمسلمان کومہنگے ،سستے علاج کے لئے مدد کی جاسکتی ہے؟

۹-مستحق مریضوں اور میتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے کے سلسلے میںایمبولینس کے اخراجات کا استعمال بیت المال سے کیا جاسکتا ہے یانہیں؟

۱۰- کیابیت المال کی رقم سے ایمبولینس خریدی جاسکتی ہے؟ اگر خریدی جا سکتی ہے توکیااسے بلاتفریق قوم ومذہب ہر شہری کے لئے استعمال کر سکتے ہیں یانہیں؟

۱۱-مدرسوں،اسکولوں، شفاخانوں، چھوٹے بڑے اسپتالوں کی تعمیرات زکوۃکے پیسوںسے جائز ہے؟اور یہ کہ ان اسپتالوں میںمہیا کی جانے والی دوائوں کا خرچ، ڈاکٹروں اور دیگر ہر درجہ کے ملازمین کی تنخواہ وغیرہ خرچ بیت المال سے ادا کیا جاسکتا ہے؟

۱۲- بیت المال میں زکوۃ کے علاوہ اور کون سی کس طرح کی رقم جمع کی جاسکتی ہے؟

۱۳- بیت المال کے انتظامی امور میں ہوئے اخراجات جیسے محصلین کی اجرت ،اسٹاف کی تنخواہ، زکوۃ،چرم قربانی جمع کرنے کے تعلق سے آمدورفت کاخرچ،پوسٹل خرچ،پرنٹنگ، پریس اور اسٹیشنری وغیرہ کا خرچ بیت المال میں سے دیا جاسکتا ہے؟

۱۴-ہنگامی حالات پیدا ہوجانے جیسے زلزلہ،سیلاب، طوفان یا دیگر ناگہانی مصیبتوں میں پھنسے مسلمان جن میں مستحق اور غیرمستحق سبھی ہوں،کیا ایسی صورت میں ان کی جان ومال کی حفاظت کے لئے بیت المال سے رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟

۱۵- ہمارے ورکرس (عاملین بیت المال) جو بغیر محنتانہ لئے محنت ولگن سے کام کرتے ہیں، جومروۃً واخلاقاً عوض میں اپنا محنتانہ لینے سے گریز کرتے ہیں تو کیا ایسی صورت میں انہیںتحفے تحائف کی صورت میںکچھ دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

۱۶- شریعت میں چرم قربانی کی رقم کے احکامات زکوۃ کی رقم کی طرح ہی ہیں ، یعنی چرم قربانی کی رقم زکوۃ کی مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے؟

۱۷- ایسے دینی مدرسے جہاں مستحق وغیرمستحق دونوں طرح کے بچے قرآن اور دینی تعلیم حاصل کررہے ہوں،کیاایسے مدرسہ کے معلم، اساتذہ کی تنخواہ ومدرسہ کے دیگر اخراجات بیت المال سے دیے جاسکتے ہیںیا نہیں؟

۱۸- آج کے ماحول سے ہمارے معاشرہ میں تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہماری سوسائٹی نے اسکولوں کے بچوں کے لئے مفت کوچنگ کلاسیز شروع کی ہے، تاکہ جس سے بچے اپنی تعلیمی حالت بہتر بنا سکیں اور بہترین نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنا مستقبل روشن بنائیں، اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین شہری ثابت ہوں، تو کیا ایسی کلاسیز کے لئے اساتذہ کرام کی تنخواہیں بیت المال میں سے دی جاسکتی ہیں ؟

۱۹-اگرفطرہ کی رقم جمع ہوجائے تو کیا اس کا استعمال ان مدات میںکیا جاسکتاہے جن کی اجازت زکوۃ کے لئے ہے؟ اور جمع شدہ فطرہ کی رقم عید کی نماز کے بعد کتنے عرصہ میں تقسیم ہوجانی چاہئے؟

۲۰-ایسی لڑکی جس کا باپ حیات ہے، کسی طرح غریبی سے اپنی لڑکی کی شادی کررہا ہو، اور ساتھ ہی وہ بیت المال سے کچھ رقم طلب کرنا چاہتا ہے توکیا اس کی مدد کی جاسکتی ہے؟ اور ایسی لڑکی جس کا باپ زندہ نہ ہو لیکن عزیز واقارب حسب حیثیت مدد کررہے ہو تو کیا ایسی لڑکی کی شادی کے لئے بیت المال سے مدد کی جاسکتی ہے؟

ھــو المصــوب:

۱-مذکور شکل میں زکوۃ کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کی اولین فرصت میں کوشش کی جائے، تاخیر بلاعذر درست نہیں ہے۔(۱)

۲-بقدرضرورت مذکورہ صورت میں مدد کی جاسکتی ہے۔

۳-ہاں کی جاسکتی ہے،اس طورپرکہ اس شخص کومالک بنادیاجائے۔(۲)

ب: مذکور شکل میں مدد کی جاسکتی ہے، بہر صورت تملیک ہو، قرض دینا درست نہیں ہے۔

’’ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لاإباحۃ‘‘۔(۳)

۴-اگر زکوۃ کی رقم سے یہ چیزیں دی جائیںتو مالک بناناضروری ہے، بہرصورت زکوۃ میں محتاج کی تملیک شرط ہے۔(۴)

۵- اگر مذکور طلباء وطالبات زکوۃ کے مستحقین میں سے ہوں تو ان کو وظائف دیے جاسکتے ہیں،جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔

۶-مستحق زکوۃ مسلمان کو نصاب سے کم مقدار مال کامالک بنادیا جائے، خواہ وہ ملازمت میں لگائے یا تجارت میں، لیکن قرض کی صورت میںدینا درست نہیںہے، مال زکوۃ قرض دینے کا فنڈ نہیں ہے۔(۱)

۷-سودی بینک میں رقم رکھنا درست نہیںہے، مجبوراً رکھنے کی صورت میں حاصل ہونے والے سود کے مستحق غرباء ومساکین ہوںگے:

’’لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ‘‘۔(۲)

۸-زکوۃ کی رقم سے مذکور افراد کی مدد کی جاسکتی ہے، مستحق زکوۃ ہونا ضروری ہے۔

نوٹ: زکوۃ سے مدد تملیک کی صورت میں کی جائے، خواہ دوا خرید کر ان کو دے دی جائے یا رقم دے دی جائے۔

۹-نہیں کیا جاسکتا ہے، اس میں محتاج کی تملیک نہیںہے:

’’ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لاإباحۃ‘‘۔(۳)

۱۰- نہیںخریدی جاسکتی ہے،اگرایمبولینس خریدناہوتوامدادکی رقم سے خریدی جائے،اس صورت میںاس کا استعمال مسلم غیرمسلم دونوں کے لئے ہوسکتاہے۔

۱۱-زکوۃ کے یہ مصارف نہیںہیں، لہذا زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہ ہوگی، البتہ اگر مستحقین زکوۃ کو مالک بنادیا جائے توزکوۃ اداہوجائے گی،اورجو دوائیں استعمال سے بچ جائیں اس کو وہ اگر چاہیںتو فروخت کردیں یا کسی دوسرے مریض کو دے دیں۔

۱۲-بیت المال میں زکوۃ کے علاوہ غریبوں پر صرف ہونے والے عطیات وصدقات کی رقم بھی جمع کی جاسکتی ہے،لیکن ان سب کا حساب وکتاب الگ الگ ہوناضروری ہے،تاکہ رقموں کا اختلاط نہ ہو۔ اور عطیات کی رقم ہر قسم کے افراد پر صرف کرنا درست ہوگا،اسٹاف وغیرہ کی تنخواہ اور دیگر خرچ زکوۃ سے کرنا صحیح نہیں ہے۔

۱۳-بیت المال کے عطیہ فنڈ سے ان چیزوںکا خرچ کیا جائے، صرف محصل زکوۃ کی تنخواہ زکوۃ فنڈ سے دی جاسکتی ہے۔

۱۴-مستحقین پر زکوۃ کی رقم اور غیرمستحقین پر عطیات کی رقم صرف کی جائے۔

۱۵-عطیات کی مد سے تحفے وتحائف دیے جاسکتے ہیں، زکوۃ کی مد سے نہیں دیے جاسکتے ہیں۔

۱۶-بیت المال چرم قربانی کی رقم زکوۃ کی مدات میں صرف کرے گا۔

۱۷-تنخواہیں زکوۃ کی مد سے نہیں دی جاسکتی ہیں،اسی طرح دیگراخراجات بھی زکوۃ کی رقم سے نہیں ہوسکتے،سوائے اس کے کہ مستحق زکوۃ کواس رقم کامالک بنایاجائے۔

۱۸-مستحق زکوۃ  لڑکوں کو وظائف دیے جائیں اور ان سے حاصل ہونے والی فیس سے تنخواہیں اداکی جاسکتی ہیں۔

۱۹-فطرہ کی رقم زکوۃ کی مدات میں صرف کی جائے، اس کو بھی جتنی جلدی ہوسکے مصرف پر صرف کردیا جائے۔

۲۰-ایسی لڑکی کی بیت المال سے مدد کی جاسکتی ہے جو مستحق زکوۃ ہو، اور تملیک کی صورت میںمدد کی جائے۔

تحریر:مسعود حسن حسنی    تصویب:ناصر علی

نوٹ: عطیات سے تنخواہ دی جاسکتی ہے۔