زکوۃ کی تنظیم کے لئے بیت المال کانظام

تعلیمی ورفاہی کاموں کے لئے زکوۃ کااستعمال
ديسمبر 19, 2022
اجتماعی نظام زکوۃ کی ایک شکل
ديسمبر 19, 2022

زکوۃ کی تنظیم کے لئے بیت المال کانظام

سوال:۱-عصر حاضر میں تنظیم بیت المال کا قیام شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے؟

===  الصدقات من الأنعام والمواشی فی أماکنھا وعلی ذلک فعل الأئمۃ من بعدہ من الخلفاء الراشدین من أبی بکر وعمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنھم… وظہر العمال بذلک من بعدھم الی یومنا ھذا۔بدائع الصنائع،ج۲، ص:۱۳۶

(۱) ویشترط فی الساعی مایلی:

(الف) أن یکون مسلماً فلا یستعمل علیھا کافراً لأنھا ولایۃ وفیھا تعظیم للوالی۔

(ب) وأن یکون عدلاً أی ثقۃ ماموناً لا یخون ولا یجور فی الجمع ولایحابی فی القسمۃ۔الموسوعۃ الفقہیۃ۔ج۲۳،ص:۳۰۷

(۲)ویکرہ لمن علیہ الزکوٰۃ أن یعطی فقیراً مأتی درھم أو أکثر ولوأعطی جاز وسقط عنہ الزکوٰۃ فی قول أصحابنا الثلاثۃ۔ بدائع الصنائع۔ ج۲،ص:۱۶۰

(۳)ویکرہ نقل الزکوٰۃ من بلد الی بلد الا أن ینقلھا الانسان الی قرابتہ أو الی قوم ھم أحوج الیھا من أھل بلدہ ولو نقل الی غیرھم أجزأ وان کان مکروھاً ۔ الفتاوی الھندیۃ ج۱۔ص:۱۹۰

۲-تنظیم سے یکمشت مستحقین کو اس زمانہ میں زیادہ سے زیادہ کتنی رقم دی جاسکتی ہے؟

۳-بیت المال کو جس میں زکوۃ، صدقۂ فطر، عطیات،چرم قربانی کی رقم جمع ہوتی ہے،ایک سال کے اندر پوری رقم خرچ کرنا ضروری ہے یادوسرے سال بھی ادا کی جاسکتی ہے؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱-بیت المال قائم کرنااور اس کے ذریعہ اجتماعی طور پرزکوۃ، فطرہ اور دیگر رقوم کو جمع کرنا اور مستحقین کو دینا شرعاً مستحسن عمل ہے۔(۱)

۲-مستحقین کو اتنی رقم نہ دیں کہ وہ خود صاحب نصاب ہوجائیں،اس سے کم رقم دے سکتے ہیں۔(۲)

۳-زکوۃ،صدقۂ فطر،چرم قربانی اورعطیات کی رقوم مستحقین زکوۃ کو جلد از جلد پہونچا دینا چاہئے (۳)لیکن سال بھر میں پہونچا دینا شرعاً لازم نہیں ہے۔اگرکسی وجہ سے پہلے سال خرچ نہ ہوسکے

(۱) خذ من أموالھم صدقہ تطھرھم۔ توبہ:۱۰۳

ثم ان اللہ تعالیٰ أمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یأخذ الصدقات وأنزل’خذ من أموالھم صدقۃ تطھرھم‘فبعث رجلین رجلا من جھینۃ ورجلا من بنی سلمۃ یأخذان الصدقات وکتب لھما أسنان الابل والغنم وکیف یأخذ انھا۔روح المعانی،ج۱۰،ص:۴۶۴،سورہ توبہ:۱۰۳

وقولہ تعالیٰ’خذ من أموالھم صدقۃ‘یدل أن أخذ الصدقات إلی الإمام وأنہ متی أداھا من وجبت علیہ إلی المساکین لم یجزہ لأن حق الامام قائم فی أخذھا فلا سبیل لہ الی اسقاطہ وقد کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوجہ العمال علی صدقات المواشی ویأمرھم بأن یأخذوھا علی المیاہ فی مواضعھا ۔أحکام القرآن للجصاص،ج۳،ص:۱۹۸

(۲)ویکرہ أن یدفع الی رجل مأتی درھم فصاعدا وان دفعہ جاز کذا فی الھدایۃ۔الفتاوی الہندیۃ۔ج۱،ص:۱۸۸

(۳) أن عقبۃ بن الحارث قال: صلی بناالنبی صلی اللہ علیہ وسلم العصر فأسرع ثم دخل البیت فلم یلبث أن خرج فقلت أو قیل لہ فقال: کنت خَلَّفت فی البیت تبراً من الصدقۃ فکرہت أن أبیتہ فقسمتہ۔صحیح البخاری،کتاب الصلوٰۃ، باب من أحب تعجیل الصدقۃ من یومھا۔حدیث نمبر:۱۴۳۰

فدل ذلک علی استحباب تعجیل الصدقۃ۔عمدۃ القاری،ج۶،ص:۴۰۸

تودوسرے سال ضرورخرچ کردیں۔

تحریر: محمدطارق ندوی      تصویب:ناصر علی