زکوۃ کی رقم سے اسپتال واسکول کی تعمیر

زکوۃ کی رقم سے عربی کالج کی تعمیر
ديسمبر 14, 2022
سرکاری اسکول کی تعمیرمیں زکوۃ صرف کرنا
ديسمبر 15, 2022

زکوۃ کی رقم سے اسپتال واسکول کی تعمیر

سوال:زکوۃ دینا ہمارے پانچ اہم فرائض میں سے ایک ہے اور اسلام کا ایک اہم ستون ہے،مگر ایسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ نہ توایمانداری سے یہ رقم نکالی جاتی ہے،اور جو کچھ نکالی جاتی ہے وہ اس طرح تقسیم کی جاتی ہے کہ ایسالگتا ہے کہ زیادہ تراشخاص کے ذریعہ ضائع کی جارہی ہے اور ملت کو کوئی فائدہ نہیںپہنچتا ہے، زکوۃ کی رقم کو تقسیم کرنے کے لئے کلام پاک میں کچھ ہدایتیں ہیں، مگر پھر بھی اس پر بحث ہوتی رہتی ہے، اور کافی اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔

ایک بات اکثر کہی جاتی ہے کہ زکوۃ کی رقم منجمد (فکسڈ) نہیںکی جاسکتی ہے، معلوم نہیںکہ یہ تشریح صحیح ہے یانہیں، اگر صحیح ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ لفظ منجمد سے کیا مراد ہے، امکانی معنیٰ یہ ہوسکتے ہیںکہ اس کو کسی بینک میں میعادی جمع کھاتہ میں فکسڈڈپازٹ نہیںرکھاجائے، یا کسی ایک شخص کے پاس نہ رکھا جائے یا کسی دیگر جگہ بطور حفاظت بچاکر نہ رکھا جائے وغیرہ، یا اس کو کسی اسکول، مدرسہ یا نرسنگ ہوم یا اسپتال تعمیر کرانے میں صرف نہ کیاجائے، یا اس سے کوئی بھی تعمیری کام نہ کیا جائے، خواہ اس تعمیری کام کا مقصد خٰالص مفلوک الحال اور پسماندہ طبقہ کو فائدہ پہنچانے کا ہی کیوںنہ ہو، مثلا اس طبقہ کے لئے انہیں بستیوںمیں اسکول یا نرسنگ ہوم یا اسی طرح کا کوئی اور کام نہیں کیا جاسکتا۔

مسلمانوںکا ایک بہت بڑا طبقہ معاشی پسماندگی کی وجہ سے نہ تواپنے بچوں کو تعلیم دلاپارہا ہے اور نہ ہی بیماری کی حالت میںاپنا علاج کرا پاتا ہے۔کھلے بازار میں یہ سہولتیں اہل نعمت حضرات کو ہی میسر ہیں، کیا زکوۃ کی رقم ان مدوں میںنہیں خرچ کی جاسکتی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جہاں یہ رقم غرباء، یتامی اور مساکین کو تقسیم کی جانی چاہئے، وہیں انہیںکی بہبودی کے واسطے تھوڑی رقم اسکول اور اسپتال کی تعمیر کے واسطے بھی الگ کی جانی چاہئے، ایسا دیکھنے میںآتا ہے کہ زکوۃ کے مد کی رقم میں سے اس کام کے لئے اگر پیسہ اکٹھاکیا جائے تو نسبتاً کم مشکل ہے اور دیگر طریقہ کچھ مشکل ہیں، نیز اگر دوسرے طریقے اختیار بھی کئے جائیں تو بھی امکان ہے کہ انجانے میں زکوۃ کی رقم دوسرے ناموںسے ملے گی، کیوںکہ اگر ایک مقررہ حصہ بطور زکوۃ نکالنا ضروری ہے تو جب تک اتنی رقم تقسیم نہیںکردی جاتی کسی بھی دوسرے نام سے دی جانے و الی رقم (اس مقررہ حد کے اندر) زکوۃ میںہوگی، یعنی اگر میرے پاس جو دولت ہے اس کے حساب سے مجھ کو دس ہزار روپیہ بطور زکوۃ نکالنا چاہئے،لیکن میں نے پورا پیسہ زکوۃ مد میں نہیںنکالا،صرف پانچ ہزار ہی بطور زکوۃ تقسیم کیا اور علاوہ ازیں چارہزار روپیہ بطور امداد کسی کو دیا اور ایک ہزار کسی اور نام سے دیا تو یہ باقی پانچ ہزار بھی زکوۃ کی ہی رقم مانی جانی چائیے۔ خواہ اس کو کسی بھی دوسرے نام سے خرچ کیا گیا ہو، ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اسکول یا مدرسہ کی تعمیر کے واسطہ زکوۃ کا پیسہ لے لیا جاتا ہے اور پھر اسے کچھ’’مستحق‘‘ لوگوں کو دے کر پھر ان سے بطور امداد مدرسہ یااسکول کی تعمیر کے لئے واپس لے لیا جاتا ہے، کیا یہ مناسب ہے؟

ھــوالمصــوب:

صورت مسئولہ میں ادائیگی زکوۃ کے لئے شرط یہ ہے کہ مستحقین زکوۃ کو بلاعوض مال زکوۃ کا مالک بنادیاجائے(۱)،اگر تملیک مفقود ہوتو زکوۃادا نہیںہوتی، اس لئے زکوۃ کی رقم اسپتال،اسکول وغیرہ یا غریبوںکے لئے کسی ایسی اسکیم وتعمیری کام جس میں تملیک نہ ہو لگانا جائز نہیں ہے۔(۲)

مذکورہ تمام تعمیری کاموںاسپتال، اسکول وغیرہ کے لئے صرف زکوۃ ہی کیا ضروری ہے، امداد باہمی کے دوسرے طریقے اختیار کیے جائیں، مسلمانوں کی تعلیمی وسماجی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے زکوۃ کے علاوہ دوسرے فنڈ بنائے جائیں، اسلامی معاشی نظام کا اہم عنصر یہ بھی ہے کہ دولت کی گردش صرف چند سرمایہ داروں کے ہاتھوںمیںسمٹ کرنہ رہے بلکہ معاشرے کے دوسرے افراد بھی دولت کے حق دارہیں، اسی لئے قرآن وحدیث کی تعلیمات میں صرف زکوۃ پر ہی اکتفاء نہیںکیاگیا ہے بلکہ امدادباہمی کی دوسری مدوں کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، جن سے مذکورہ تعمیراتی کام ہوسکتے ہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ زکوۃ کی رقم مستحقین کو دے کر ان سے بطور امداد مدرسہ یا اسکول کی تعمیر کے لئے واپس لے لیا جاتا ہے، اگر کسی غریب کو بلاعوض اور بلا عہدوپیمان زکوۃ کی رقم دی جائے اور وہ ازخود کسی ترغیب کے ذریعہ بلاکسی زور دبائو کے مدرسہ یا اسکول کی تعمیر کے لئے دے دے تو درست ہے، صرف اسی مقصد سے اس کو زکوۃ دے کر پھر زورزبردستی سے وصول کرلینادرست نہیںہے۔(۱)

تحریر:محمدطارق ندوی      تصویب:ناصر علی