سوال:۱-شہر سے ہٹ کر دیہات میں ایک مکتب قائم ہے، جہاں دینی اور دنیوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہے، یہاں کے لوگ غربت کے شکار ہیں ، کیا ایسے مکتب کا مکان بنانے میں زکوۃ کی رقم لگائی جاسکتی ہے؟
۲-کیا سید خاندان کے غریب ونادار لوگوں کو زکوۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے؟
۳-کیا کوئی اپنی کمائی کے روپئے سے مکتب یا مدرسہ کے لئے بیت الخلاء واستنجاء خانہ بنائے تو ثواب کا مستحق ہوگا؟
۴-اور کیاسود کی رقم سے بیت الخلاء اور استنجاء خانہ بنوانے سے ثواب ملے گا؟
ھــوالمصــوب:
۱-صورت مسئولہ میں زکوۃ سے مکاتب یا مدارس کے لئے کمرے بنوانا جائز نہیں ہے، بلکہ زکوۃ کا حاجت مندوں کومالک بنانا ضروری ہے۔(۱)
۲-زکوۃ نہ دے کر عطیہ کی رقم دی جائے لیکن اگر عطیہ نہ مل سکے اور وہ بہت شدید حاجت مند ہے تو مجبوراً زکوۃ بھی دی جاسکتی ہے۔ (۲)
۳-نمازیوں کو راحت پہونچانا بھی ثواب کا کام ہے۔
۴-سود کا روپیہ بلانیت ثواب محتاجوں کو دیا جائے، بیت الخلاء واستنجاء خانہ میں یہ رقم صرف نہیں کی جاسکتی ہے۔
تحریر:مسعود حسن حسنی تصویب:ناصر علی