سوال:۱-ایک مکتب پانچویں تک حکومت سے منظور ہے، بچوں سے ۲۰؍روپے ماہانہ فیس لیتے ہیں، مدرسین کی تنخواہ ودیگر ضروریات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے، یتیم بچوں کو کتابیں وغیرہ اسکول سے دی جاتی ہیں، کیا ایسے ادارے میںزکوۃ کی رقم دینا جائز ہے؟
۲-مسلمانوں کی ایک تنظیم کمزور بچوں کی مدد کے لئے قائم ہے، زکوۃ وصدقات جمع کرتے ہیں، اگر کوئی نادار ڈاکٹری پڑھتاہے تواس زکوۃ کی رقم سے اس کی امداد درست ہے؟
ھــوالـمـصـــوب:
۱-دریافت کردہ صورت میں ایسے ادارے جہاں غریب ونادار اوریتیم بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں،اگر ان کی امداد کے لئے زکوۃ وصول کی جائے تو شرعاً جائز ہے، نادار بچے ان رقوم سے اپنی تعلیمی فیس بھی جمع کرسکتے ہیں، کپڑے بھی خریدسکتے ہیں، اسی طرح کتابیں اور دیگر ضروریات کی چیزیں خرید سکتے ہیں۔(۲)
اگرمکتب کے ذمہ داران اس طورپرزکوۃ کی رقم صرف کریں جس کااوپرذکرہواتواس مکتب میں زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
۲-اگرغریبوں اور کمزوروں کی امداد کے لئے زکوۃ کی رقم وصول کی جاتی ہے تو شرعاً درست ہے،اعلی تعلیم حاصل کرنے والے غریب بچوں کوبھی زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔(۱)
تحریر: محمدظفرعالم ندوی تصویب:ناصر علی