زکوۃ کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہ دینے کاایک حیلہ

زکوۃ کے لئے وکالت کامسئلہ
نوفمبر 30, 2022
تملیک کی بہترشکل
نوفمبر 30, 2022

زکوۃ کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہ دینے کاایک حیلہ

سوال:۱۔ایک بستی میں مسجد اور مکتب اور مدرسہ قائم ہیں اور اس بستی کے لوگ بخل کی وجہ سے یا مالی کمزوری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے مسجد،مکتب اور مدرسے پر اپنی پاک کمائی کی رقم نہیں خرچ کرتے ہیں اور اندیشہ ہے کہ اگر موذن اور امام اور مدرس صاحب کو تنخواہ نہیں دی جائے گی یا ان کی تنخواہ میںکسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو وہ لوگ اپنا کام چھوڑدیںگے،مسجد میںکوئی اذان دینے والا اور نماز پڑھانے والا نہیںرہے گا اور مکتب اور مدرسے میںکوئی تعلیم دینے والا نہیں رہے گا، مکتب اور مدرسہ بند ہوجائے گا تو اس صورت میں ہدیہ کی رقم نہ ہونے کی بناپر زکوۃ، صدقات اور چرم قربانی کے رقم سے مذکورہ بالا حضرات کو تنخواہیں دی جاسکتی ہیں یا نہیں؟

۲۔ ایک مدرسہ کی رقم دوسرے مدرسہ میں اور ایک مسجد کی رقم دوسری مسجد میں، مدرسے کی رقم مسجد میں اور مسجد کی رقم مدرسہ میں ضرورت کی بنا پر لگائی جاسکتی ہے یا نہیں؟

۳۔اگر کسی بستی میں چند مسجدیں ہیں اور سب میں مکتب قائم ہے، کسی مسجد میں کم رقم ہے اور کسی میں زیادہ ہے اور کسی میں کچھ بھی نہیں ہے، سارے مساجد اور مکاتب کو ایک ساتھ چلایا جائے اور اسی طرح دو دارالاقاموں کو ایک ساتھ چلایا جائے تو جس مکتب یا مسجد یا مدرسے میں رقم ہے اس کی رقم سے جس میں نہیں ہے ان کو چلایا جاسکتا ہے یا نہیں؟

۴۔اکثر دیہاتوں میںپڑھانے کے لیے مولوی صاحب اور حافظ جی کو رکھ لیتے ہیں وہ مکتب میں بھی پڑھاتے ہیں اور نماز بھی پڑھاتے ہیں اور جب ان کو تنخواہ دیتے ہیں تو بغیر تفریق کے دیتے ہیں،یہ طریقہ صحیح ہے یاتفریق کرنا چاہئے؟

۵۔ جوصاحب مسجد اور مکتب اور مدرسے کے لئے چندہ وصولتے ہیں کسی مہینہ میںزیادہ رقم وصولتے ہیں کسی مہینہ میںکم اور کسی مہینہ میں کچھ بھی نہیں تو ان کی تنخواہ مقرر کی جائے یا فیصد کے حساب سے دیا جائے؟ اور اگر فیصد کے حساب سے دیا جائے تو ایک ہزار میں کتنا دیاجائے اور کھانہ کرایہ الگ سے دیا جائے یا ان کو دی ہوئی رقم میں جوڑدیا جائے؟

ھــوالمصــوب:

۱-زکوۃ کے اصل حقدار فقراء ومساکین ہیں، لیکن عام طور پر لوگ مدارس میں زکوۃ کی رقم دیتے ہیں،اگر مہتمم قبول نہ کرے تو مدرسہ چلانا اور مدرسین کی تنخواہ دینا مشکل ہوجاتاہے، اس لئے ایسی مجبوری کی صورت میں بقدر ضرورت زکوۃ کی رقم لے کر شرعی حیلہ کرکے مدرسین کی تنخواہ میں دینے کی گنجائش ہے (۱)،لیکن تعمیری کام میں زکوۃ وصدقات وچرم قربانی استعمال نہ کیا جائے اس کے لئے دوسری رقم حاصل کی جائے۔

۲-ایک مدرسہ کی رقم دوسرے میں اسی طرح ایک مسجد کی رقم دوسری مسجد میں صرف نہیں کرسکتے، الا یہ کہ رقم ضرورت سے زیادہ ہو اور مستقبل میں اس کی ضرورت بھی نہ ہو تو اس رقم کواس جنس کی مد میں لگاسکتے ہیں یعنی ایک مدرسہ کی رقم دوسرے مدرسہ میں لگاسکتے ہیں،اسی طرح مسجد کا حکم ہوگا۔ (۲)

۳-مذکورہ صورت جائزنہیں ہے،الایہ کہ وقف کرنے والے اورچندہ دہندگان یہ صراحت کردیں کہ رقم دوسرے مصرف میں بھی صرف کرسکتے ہیں۔

۴-تراضی طرفین سے جو معاملہ آپس میں طے ہوا ہے، اسی کے مطابق وہ اجرت کا مستحق ہوگا(۱)۔

۵-چندہ وصول کرنے والے کی تنخواہ مقرر کردی جائے، فیصد مقرر کرنا جائز نہیں ہے، سفر کے اخراجات اور قیام وطعام کے سلسلہ میں آپس میں جو طے ہوجائے اسی کے مطابق عمل کریں۔

تحریر:محمد ظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی