قرض کی ادائیگی زکوۃکی رقم سے یا بینک کے سودی قرض سے

کیاصدقہ کے جانورکو بیچ سکتے ہیں؟
ديسمبر 27, 2022
زکوۃ کی رقم کاعطیہ کی رقم سے تبادلہ
ديسمبر 27, 2022

قرض کی ادائیگی زکوۃکی رقم سے یا بینک کے سودی قرض سے

سوال:زیدنے دولاکھ روپئے ایک متعینہ مدت پر بطور قرض (غیرسودی) حاصل کرکے ایک فیکٹری تیارکی۔ اس فیکٹری میں ایک آدھ سال فائدہ ہوا، بعد ازاں نقصان ہونا شروع ہوا جس کی وجہ سے قرض توادا نہیںہوسکا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا اور زید مقروض ہی رہا۔ لہذا زید نے اپنی اس فیکٹری کو بیچ کراپنے قرض کو ادا کرنے کا ارادہ کیا، لیکن فیکٹری کو نقصان میں چلتا ہوا دیکھ کر خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہوا۔ اب یہ فیکٹری اس کے گلے کا پھندا بن گئی، نہ ہی قرض ادا ہورہاہے اور نہ ہی فیکٹری بک رہی ہے۔ اب مجبوراً اس نے یہ فیکٹری خالد کوادھار تین قسطوں میں بیچا (یعنی دوسال میں ادا کرنے کے وعدہ پر) نیز فیکٹری بھی اس کے حوالے کردی۔ زید مطمئن تھا کہ خالد کی طرف سے حسب وعدہ اسے رقم ملے گی اور وہ اپنا قرض پورا کرے گا، لیکن خالد نے وعدہ خلافی کی اور حسب وعدہ کوئی رقم نہیں ادا کی جس کی وجہ سے زید کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا، کیوں کہ فیکٹری کے بیچنے سے قبل جتنی رقم کاوہ مقروض تھا، بیچنے کے بعد بھی اتنے ہی کا مقروض ہے اور ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں۔ دوسری طرف قرض دہندگان کا مطالبہ بھی شروع ہوچکا ہے، کیوںکہ ادائیگی کامقررہ وقت بھی ختم ہوچکا ہے، کسی صورت میں بھی اسے اپنا قرض دولاکھ روپے ادا کرناضروری ہے ورنہ بے عزتی اورذلت کا خطرہ ہے ۔وہ اس فیکٹری کو واپس بھی نہیں لے سکتا کیوںکہ فیکٹری بھی خستہ حالت میں ہے، اور اسے خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہے جس سے وہ قرض ادا کرسکے، نیز آمدنی کاکوئی ذریعہ بھی نہیں۔ ماہانہ جو کچھ بھی کماتا ہے وہ بڑی مشکل سے اس کے بال بچوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اب وہ بے انتہا پریشان ہے کہ کس طرح وہ قرض سے چھٹکارا حاصل کرے۔ ہاں البتہ اس کے پاس ایک مکان ضرورت کے بقدر ہے جس کی مالیت اسّی نوے ہزار روپے ہوگی۔ اس کے علاوہ گھر کے اطراف آٹھ گنیہ زمین ہے، جس میںکچھ ناریل کے درخت ہیں ان سے بھی کوئی آمدنی حاصل نہیں ہوئی، البتہ سال بھر میں اتنے ناریل حاصل ہوتے ہیں جتنے سال بھر کے لیے اسے درکار ہیں۔ لیکن اس زمین کی ایک پوزیشن ضرورہے، اگر اس کو بیچا جائے تو دوتین لاکھ روپئے مل سکتے ہیں اور قرض پورا ادا ہوسکتا ہے۔ تاہم وہ اس طرح کرنے کی وجہ سے اپنی رہی سہی پونجی سے محروم رہ جائے گا۔ نہ صرف وہی بلکہ اس کے بیوی بچے بھی۔ اس لیے وہ اس کو بیچنا بھی نہیں چاہتا کیوںکہ اس کو مستقل آمدنی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اور مستقبل میں وہ زمین اس کے اور اس کی بیوی بچوں کے کام آسکتی ہے۔

تو کیا ایسی پریشان کن صورت میں اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بقدر قرض زکوۃ کی رقم حاصل کرکے اپنا قرض ادا کرے یا اس پر واجب ہے کہ وہ اپنا گھر بار اور زمین بیچ کر قرض ادا کرے اور رہی سہی پونجی سے خود محروم ہوکر اپنے بیوی بچوںکو بھی محروم کردے، یا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ بینک سے سودی قرض حاصل کرکے قرض ادا کرے اور بینک کے قرض کو اپنی کمائی سے قسط وار ادا کرے۔

ھــوالمصــوب:

قرضدار کے ذمہ قرض کی ادائیگی لازم ہے، قرض خواہ سے مہلت اس کی رضامندی سے لے سکتا ہے، قرض خواہ اگر مہلت نہ دے تو اپنی جائیداد بچانے کے لیے زکوۃ حاصل کرنے کی اجازت نہ ہوگی ، اس صورت میں جائیداد فروخت کرکے قرض کی ادائیگی ضروری ہوگی۔ سود پر رقم حاصل کرکے بھی جائز نہ ہوگا کیوں کہ سودی معاملہ کرنا ممنوع ہے، ہاں رہائشی مکان جس میں وہ اور اس کے بچے رہتے ہیں اس کا فروخت کرنا لازم نہ ہوگا۔

تحریر:محمد ظہور ندوی