قرآن کے بوسیدہ اوراق کاحکم

قرآن کے بوسیدہ اوراق کاحکم
أكتوبر 30, 2018
مختلف جگہوں پر قرآنی آیا ت لکھنا
أكتوبر 30, 2018

قرآن کے بوسیدہ اوراق کاحکم

سوال :1-قرآن مجید ﷲ کا کلام ہے ،ہر مسلمان اس کا دل وجان سے احترام کرتا ہے ،اس کی بے ادبی کرنا یا اس کو جلانے سے متعلق کوئی گنہ گار سے گنہ گار مسلمان بھی نہیں سوچ سکتا ،مگر زید کہتا ہے کہ قرآن کوجلایا جا سکتا ہے ،خلیفہ عثمان نے اسے جلایا تھا،اس لئے میں نے اس قسم کے سارے رسالے اور کلینڈر وغیر ہ جلاکر اس کی راکھ کیاری میں ڈال دی ہے،اگر جلایا تھا تو کیوں اور کس لئے ؟ ۲-اگر کسی وجہ سے خلیفہ سوم نے ایسا کیا بھی تو اس سے یہ مسئلہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بوسیدہ قرآن پاک کو یا اس کی آیا ت جو رسائل اور کلینڈر وغیرہ میں لکھی ہوئی ہوں انہیں اکھٹا کرکے جلایا جائے ۔ ۳-قرآن مقدس کو ابھی تک مردود وملعون کفار ہی جلا رہے تھے لیکن اب مسلمان بھی ایسا کرنے لگے ہیں ، ایسے شخص کے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ؟ ِ

ھوالمصوب:

1-اگر قرآن بوسیدہ ہوجائے اور بے حرمتی کا اندیشہ ہو تو بہتر صورت یہ ہے کہ اس کونہایت احترام کے ساتھ کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے (1)اگر قلمی نسخہ ہے تو بہتر یہ ہے کہ اولا پانی میں دھو ڈالے اور کا غذات دفنادے اور جس پانی میں دھویا گیا ہے اس پانی کوپی سکتے ہیں ،اس میں ہر مرض اور دلی بیماری کی شفاء ہے (۲) ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایسے کنویں میں یا پھر ندی کے اس حصہ میں جہاں پر لوگ نہاتے نہ ہوں کسی وزنی چیزمیں رکھ کرڈالدیا جائے(۳)جلانے کو جب بے حرمتی سمجھاجائے تو جلانے کی اجازت نہ ہوگی (۴) ہاں جب کسی دوسری شکل کے اختیار کرنے میں بے حرمتی کا اندیشہ ہو اور جلائے بغیر چارہ نہ ہو اور احترام کی خاطر جلایا جائے تو اس کو جلانے کی اجازت ہے ،لیکن اس کی راکھ احترام کے ساتھ کہیں ایسی جگہ پر دفن کردی جائے جہاں لوگوں کا گزر نا کم ہو یا ہو ہی نہیں ۔ جہاں تک حضرت عثمان ؓ کا تعلق ہے تو انہوں نے قرآن جلانے کا حکم دیا تھا(۵)انہوں نے اختلاف دفع کرنے اور شورش عوام کی وجہ سے غیر قرآنی زبان کے قرآن کو جلانے کا حکم دیا تھا تاکہ تحریف کی کسی بھی قسم کا اندیشہ باقی نہ رہے،فتاوی رحیمیہ اور امداد الفتاوی میں ہے کہ اس احراق میں اختلاف ہے ا س لئے فعل میں بھی گنجائش ہے اور ترک احوط ہے (1) ۳-زید کا اگر مذکورہ عمل احترام کے تقاضہ کے تحت تھا تو زیدسے بدگمان ہونا درست نہیں ہے ،اور اس کی امامت درست ہوگی ۔ ۴-جواب بالتفصیل گزر چکا ہے ،لیکن افضل اور احوط نہ جلانا ہی ہے ،بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کیا جائے جہاں لوگو ں کا گزر نہ ہو ۔ ِ
تحریر :مسعود حسن حسنی

تصویب : ناصر علی ندوی