متعددبارنمازجنازہ کاحکم

متعددبارنمازجنازہ کاحکم
نوفمبر 11, 2018
امام کے لئے مصلی بنانا
نوفمبر 11, 2018

متعددبارنمازجنازہ کاحکم

سوال:ایک نعش کی نماز جنازہ کتنی مرتبہ پڑھی جاسکتی ہے؟ میت کی موجودگی میں کتنی مرتبہ اور عدم موجودگی میں کتنی مرتبہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے؟

ھــوالــمـصــوب:

وجملۃ ذلک أن من فاتتہ الصلاۃ علی الجنازۃ فلہ أن یصلی علیھا مالم تدفن، فإن دفنت فلہ أن یصلی علی القبر إلیٰ شھر ھذا قول أکثر أھل العلم من أصحاب النبی ﷺ وغیرھم روی ذلک عن أبی موسیٰ وإبن عمر وعائشۃ ؓ وإلیہ ذھب الأوزاعی والشافعی، وقال النخعی

(۱) درمختار مع الرد،ج۳،ص:۱۲۴

والثوری ومالک وأبو حنیفۃ لا تعاد الصلاۃ علی المیت إلا للولی إذا کان غائبا ولایصلی علی القبر إلا کذلک، ولوجاز ذلک لکان قبر النبی ﷺ یصلی علیہ فی جمیع الأعصار(۱)

ومن صلی مرۃ فلایسن لہ إعادۃ الصلاۃ علیھا(۲)

تجوز الصلاۃ علی الغائب فی بلدآخر بالنیۃ فیستقبل القبلۃ ویصلی علیہ کصلاتہ علی الحاضر، وسواء کان المیت فی جہۃ القبلۃ أولم یکن وسواء کان بین البلدین مسافۃ القصر أولم یکن وبھذا قال الشافعی، وقال مالک وأبوحنیفۃ لایجوز، وحکی إبن أبی موسیٰ عن أحمد روایۃ أخریٰ کقولھما لأن من شرط الصلاۃ علی الجنازۃ حضورھا بدلیل مالوکان فی البلد لم تجز الصلاۃ علیھا مع غیبتھا(۳)

مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ ایک ہی بار پڑھی جاسکتی ہے، ہاں اگر ولی نے نہ پڑھی ہو تو ولی کے لئے اس کا اعادہ جائز ہے، یہی امام ابوحنیفہؒ وامام مالکؒ کا قول ہے، جہاں تک غائبانہ نمازجنازہ کا تعلق ہے تو امام ابوحنیفہؒ وامام مالکؒ اس کو جائز نہیں قرار دیتے ہیں، جبکہ امام شافعیؒ وامام احمد بن حنبلؒ اس کی مشروعیت کے قائل ہیں۔

تحریر: مسعود حسنی ندوی   تصویب: ناصر علی ندوی