تراویح میں قرآن بہت تیزپڑھنا

 تراویح میں قرآن بہت تیزپڑھنا
نوفمبر 10, 2018
تراویح میں قرآ ن کا کتناحصہ پڑھنا چائیے ؟
نوفمبر 10, 2018

 تراویح میں قرآن بہت تیزپڑھنا

سوال:۱-تراویح میں پاروں کی مقررہ مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ، کس طرح کی تیز رفتاری کی اجازت ہے اور کس حد تک؟

۲-کیا تراویح میں ایسی تلاوت کی گنجائش ہے جس میں صرف جلدی سے ختم کرنے کی خاطر ایسی عجلت اور تیزی کا مظاہرہ کیا جائے جو حافظ صاحب کو حروف والفاظ کی صحت وصفائی اور تجوید کی رعایت کے ساتھ تلاوت کرنے سے قاصر بنادے؟کیاایسی تلاوت سامع اور حافظ کیلئے اجر وثواب اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے؟

۳-تراویح میں قرآن کی تلاوت میں تجوید یعنی تلاوت کے قاعدے اور ضابطے (حروف والفاظ کی صحت وصفائی کے ساتھ ادائیگی، بے محل اور بے موقع وقف کرنے سے پرہیز) کی پابندی لازم وواجب اور ضروری ہے یا نہیں؟

۴-ﷲ عزوجل نے قرآن کریم اور محمد رسول ﷲ ﷺ کی زبانی قرآن پڑھنے والے سے ترتیل یعنی تجوید کے ساتھ تلاوت کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے وہ مطلق اور ہمہ وقتی ہے؟ یا کچھ موقع اس سے مستثنیٰ ہیں، جن میں تلاوت کے قاعدوں اور ضابطوں کی رعایت نہ کرنا معفوعنہ اور قابل قبول ہے؟ مثلاً ایک موقع نماز تراویح کا ہے، اس موقع پر حافظ صاحب من چاہے ڈھنگ سے یا فرمائشی ڈھنگ سے قرآن کی تلاوت میں آزاد ہیں، یا رب چاہے طریقے سے پڑھنے اور سنانے کے اس موقع پر بھی پابند ہیں؟ (فرمائشی ڈھنگ سے ہماری مراد سامعین کی جلد سے جلد ختم ہونے کی خواہش کی رعایت کرکے خوب تیزی سے قرآن سنانا ہے)

۵-قرآن سنانے کیلئے کس طرح کے حافظ کو منتخب کرنا ضروری ہے؟ صحیح پڑھنے والے کو بھلے کچھ دیر لگائے، یا مذکورہ قسم کے جلدباز تیز رفتار حافظ کو؟

۶-مسجدوں کے متولیان، ذمہ داران اور پنج وقتہ مصلیان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں کہ منتخب حافظ کو اس کا پابند بنائیں کہ :

(الف) قرآن پڑھنے کا جو حق ہے اسی طرح پڑھے گا۔

(ب) قرآن کی تلاوت تیزی سے کرکے اس کو صحت وتجوید سے معری (خالی) کرکے قرآن کے ساتھ مذاق نہ کیجئے گا۔

(ج) آپ کو قرآن صحیح صحیح پڑھنے کے لئے منتخب کیا جارہا ہے۔ تراویح کے نام پر ایسی عجلت اور تیزی کا کرتب دکھانے کے لئے نہیں جو تلاوت وتراویح کے اجر وثواب سے ہم کو اور آپ کو محروم اور نامراد کردے۔

حضرات مفتیان کرام! مذکورہ بالا سوالات وصورت حال کی صورت میں مسئلہ کی کسی قدر ضروری تفصیل صرف اس غرض سے پیش کی گئی ہے کہ ائمہ سلف، فقہائے امت اور ائمہ قرأت کے حوالہ سے مسئلہ کامدلل اور مفصل جواب مرحمت فرمایا جائے تاکہ سلیم طبیعتیں صحیح قدم اٹھاکر تراویح جیسے عظیم الشان عمل کو حصول ثواب، ﷲ سے قربت اور گناہوں سے مغفرت کا وسیلہ بنانے لگیں اور تراویح میں قرآن کریم سننے اور سنانے کا وہ نظم قائم کرنے والی بنیں جو ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند اور قبول ہو۔

ھــوالــمـصــوب:

۱-تراویح کی نماز میں ایک قرآن ختم کرنا سنت ہے، قوم کی کاہلی کی وجہ سے اس کو ترک نہیں کیا جائے گا، البتہ دو، تین، بار ختم قرآن افضل ہے، لیکن اس سے زیادہ بھی قرآن شریف تراویح کی نماز میں پڑھ سکتے ہیں(۱)عادت سلف ختم قرآن کے سلسلہ میں مختلف منقول ہوئی ہیں حتی کہ بعض بزرگوں نے ایک شب وروز میں تین ختم کیے اور بعضوں نے آٹھ ختم کیے ۔ اقرب الیٰ التحقیق یہ ہے کہ اگر متعدد بار ختم کرنے میں قرآن صاف صاف پڑھاجائے حروف والفاظ کی صحت اور صحیح ادائیگی کا التزام کیا جائے تو جائز ہے اور اگر اتنی جلدپڑھیں کہ حرف تک سمجھ میں نہ آوے،نہ زبر کی خبر نہ زیر کی، نہ غلطی کا

(۱)والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل ولایترک الختم لکسل القوم۔ درمختار مع الرد،ج۲،ص:۴۹۷

خیال نہ متشا بہ کا،اور فقط ریاکاری مقصود ہو تو ناجائز ہے۔

۲-اگر حفاظ ترتیل وتجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کرتے ہوں، قرآن کے آداب کو ضائع کرتے ہوں اور حروف والفاظ کی صحت وصفائی کی رعایت نہ کرتے ہوں تو ایسی تلاوت سامع اور حفاظ کیلئے باعث اجر وثواب نہ ہوگی(۱)

ورتل القرآن ترتیلا(۲)

وإذا قاموا إلیٰ الصلوۃ قاموا کسالیٰ یراؤن الناس(۳)

۳-تراویح میں قرآن کی تلاوت میں تجوید کی پابندی ہونی چاہئے لیکن ایسی قرأت جس سے تقلیل جماعت کا خوف ہو بچنا چاہئے کیوں کہ تکثیر جماعت افضل ہے تطویل قرأت سے ،البتہ ایسی جلدی بھی مکروہ ہے جس میں الفاظ وحروف کی صحت وغیرہ کی رعایت نہ کی گئی ہو:

ویکرہ الإسراع فی القرأ ۃ وفی أداء الأرکان کذا فی السراجیۃ وکلّما رتّل فھو حسن، کذا فی فتاویٰ قاضیخاں والأفضل فی زماننا أن یقرأ بمالا یؤدی إلیٰ تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلھم لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القرأۃ کذا فی محیط السرخسی(۴)

۴-قرآن کی تلاوت میں تجوید کی رعایت مطلق اور ہمہ وقتی ہے، البتہ اگر مصلّیان حضرات جلدی چاہتے ہوں تو حفاظ کے لئے ایسی تیزی جس میں تلاوت کے قاعدوں اور ضابطوں کی رعایت ہو گنجائش ہے، کیوں کہ ایسا نہ کرنے میں تقلیل جماعت کا اندیشہ ہے اور یہ بہتر نہیں ہے:

والأفضل فی زماننا أن یقرأ بما لایؤدی إلیٰ تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسھلم لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القرأۃ(۵)

(۱) الفتاویٰ الہندیہ،ج۱،ص:۱۱۸    (۲) سورۂ مزمل:۴

(۳) سورۃ النساء:۱۴۲         (۴) الفتاویٰ الہندیہ،ج۱،ص:۱۱۷تا ۱۱۸

(۵) الفتاویٰ الہندیہ ،ج۱،ص:۱۱۸

۵-قرآن سنانے کے لئے صحیح اور تیز پڑھنے والوں کو منتخب کرنا مناسب ہے۔

۶-مسجد کے متولیان وذمہ داران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ منتخب حفاظ کو مذکورہ بالا صفات کا پابند بنائیں۔

تحریر:محمد ظفرعالم ندوی  تصویب:ناصرعلی ندوی