امام کے عزل ونصب کا اختیار

امام کے عزل ونصب کا اختیار
نوفمبر 3, 2018
امام کے عزل ونصب کا اختیار
نوفمبر 3, 2018

امام کے عزل ونصب کا اختیار

سوال:۱-امام مسجد نے ایک عریضہ چیئریٹی کمشنر کے دفتر میں داخل کیا ہے کہ انہیں ٹرسٹی نامزد کیا جائے کیوں کہ اس ٹرسٹ کے ٹرسٹی حضرات لاپتہ ہیں، یا امام مسجد کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور وہی پچھلے کئی سالوں سے مسجد کے انتظام کی نگرانی دیکھ بھال اور انتظامات انجام دے رہے ہیں، مذکورہ بالا عریضہ غلط اور گمراہ کن معلومات پر مبنی ہے کیوں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، امام مسجد درحقیقت ٹرسٹ کی ملازمت میں ہے اور باقاعدگی کے ساتھ ماہانہ تنخواہ ٹرسٹ سے وصول کرتا ہے اور امام کو ٹرسٹی حضرات کی موجودگی کا پوری طرح علم ہے، چونکہ امام مسجد نے

(۱) العنایۃ علی ھامش فتح القدیر،ج۱۰،ص:۳۴۵

(۲) وکذلک لونازعہ أھل السکۃ فی نصب الإمام والمؤذن کان ذلک إلیہ إلا إذا عین ھو لذلک رجلا وعین أھل السکۃ رجلاً آخر أصلح ممن عینہ البانی فحینئذ لا یکون البانی أولی۔ الفتاویٰ الخانیۃ،ج۳،ص:۲۹۷

حقیقت سے انحراف کیا، اور حقائق وسچائی کو درپردہ رکھ کر جھوٹ اور غلط کا سہارا لیا، کیا ایسا شخص امام ہونے کے لائق ہے؟ اور کیا ایسے شخص کی امامت میں نماز درست اور صحیح ہوگی؟

۲-مذکورہ امام نے مندرجہ بالا عریضہ کے ساتھ ایک اسکیم بھی اپنی مرضی اور موافقت کے مطابق چیئریٹی کمشنر کے دفتر میں داخل کی کہ ٹرسٹ میں کم از کم تین ٹرسٹی ہوں گے، اور زیادہ سے زیادہ بھی تین ٹرسٹی ہوں گے، اور مذکورہ امام اس ٹرسٹ کا تاحیات چیئرمین ہوگا اور ان کی وفات کے بعد ان کا لڑکا چیئرمین ہوگا، اور یہ سلسلہ اسی طرح نسل در نسل چلتا رہے گا، یعنی مسجد اور مذہبی ٹرسٹ میں خاندانی اجارہ داری اور وراثت کی دخل اندازی، آیا مسجد ومذہبی ٹرسٹ کے معاملات اس کے بالکل برعکس وبرخلاف رہے ہیں، خاندانی اجارہ داری اور وراثت کی مانگ درحقیقت ذاتی مفاد کو تقویت دیتی ہے، ایسی صورت حال میں مسجد امام کی شخصیت مشکوک دکھائی دیتی ہے، آیا ایسا متنازعہ شخصیت والا شخص کیا امام ہوسکتا ہے؟

۳-مسجد کے ٹرسٹی حضرات نے امام کی سہولت کے لئے مسجد کے صحن سے لگی ہوئی متصل جگہ امام کے رہنے کے لئے بغیر کسی کرایہ اور معاوضہ کے دی، امام اب وہاں اپنے اہل وعیال کے ساتھ قیام پذیر ہے، اور اس نے اپنی سہولت وآرائش کے مطابق مذکورہ جگہ میں کافی ردوبدل اور تبدیلی بھی کی، اور مسجد کی مزید جگہ پر قابض ہوکر اسے بھی اپنی رہائش گاہ میں شامل کردیا، کیا ذاتی عیش وآرام کے لئے مسجد کی ملکیت کو اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کرنادرست ہے؟ اور مسجد کا صحن اور اس سے لگی ہوئی متصل مسجد کی جگہ پر اہل خاندان کے ساتھ رہنا صحیح ودرست ہے؟ جبکہ مسجد کے قریب ہی اس کا اپنا ذاتی رہائشی مکان ہے اور امام بذات خود تعویذ وگنڈے کے کاروبار کے ذریعہ معاشی اعتبار سے آسودہ اور خوشحال ہے، اور بوقت ضرورت مزید اپنا نیا ذاتی مکان خریدنے کی استطاعت وطاقت رکھتا ہے؟

۴-مسجد کے صحن میں کچھ قبریں تھیں، امام ہذا نے ان قبروں کو مسمار کرکے زمین دوز کردیا، اور صحن کے ایسے کچھ حصہ پر باورچی خانہ تعمیر کروایا، شرع کے مطابق قبروں کا مسمار اور زمین دوز کرنا کیسا ہے؟ اور کیا ایسی جگہ کا استعمال ذاتی مقصد کے لئے جائز ہوسکتا ہے؟

۵-امام صاحب کی ذاتی زندگی بھی نہایت پرکیف ہے، یہ حضرت تین یا چار بیویاں رکھتے ہیں اور ان کی کفالت کرتے ہیں (جبکہ آج کے اس دور میں ایک بیوی بھی پالنا محال ہے) ایسے متنازعہ امام کے پیچھے مصلیان کی نماز درست ہوگی؟

۶-شرع کے رو سے مسجد کے احاطہ میں مسجد یا ٹرسٹ کے عہدیداران اور ان کے اہل وعیال اور فیملی کے لئے مناسب، آرائشی وآرام دہ رہائش گاہ کی تعمیر اور ایسی تعمیر پر مسجد کی ٹرسٹ کے فنڈ سے اخراجات؟

ھـو المـصـوب

۱-غلط بیانی سے کام لینا عمل فسق ہے اور فاسق کی امامت مکروہ ہے، نزاع سے بچتے ہوئے حکمت عملی سے ایسے امام کو امامت سے معزول کردیا جائے لیکن مسلمانوں کے مابین نزاع سے ہرحال میں بچاجائے۔

۲-امام کا اس طرح کا عمل صحیح نہیں ہے، اس لئے متولی مسجد کو اختیار ہے کہ امامت کے منصب پر مذکورہ امام کو فائز رہنے دے یا معزول کردے لیکن نزاع بین المسلمین سے حتی الامکان بچاجائے۔

۳-امام کو مسجد کی ملکیت میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہے، البتہ اگر اس زمین پر نماز نہیں ہوتی ہے تو متولی کی اجازت سے مصالح مسجد میں استعمال کرسکتے ہیں۔

۴-جائز نہیں ہے۔

۵-مذکورہ امام کی امامت درست ہے، چاربیوی تک زوجیت میں رکھنا درست ہے یہ امام پر اعتراض کی بات نہیں ہے۔البتہ ناجائز آمدنی اس کے لئے حاصل کرنا غلط ہے۔

۶-مسجد کے ٹرسٹ کے فنڈ سے اخراجات درست نہیں ہے، البتہ امام مسجد کی تنخواہ یا ان عہدیداران کی تنخواہ جوکہ مسجد کے مفادات کے لئے ضروری ہیں، مذکور ٹرسٹ سے ادا کی جاسکتی ہے۔

مسجد کے معاملات کو نزاعی نہ بنایا جائے، اگر مذکور امام نے غلط اور چالاکی سے اپنی کمیٹی کو رجسٹرڈ کروالیا ہے اور پرانی کمیٹی رجسٹرڈ نہ تھی تو اب نزاع نہ کیا جائے بلکہ حکمت عملی سے اور معاملہ فہمی سے اس کا حل تلاش کرلیا جائے، اور اگر پرانی کمیٹی رجسٹرڈ تھی تو مندرجہ بالا جوابات پر عمل کرسکتے ہیں۔

تحریر: محمد مستقیم ندوی              تصویب: ناصر علی ندوی