رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھے؟

وتر میں دعائے قنوت بھول جائے ؟
نوفمبر 2, 2018
نوفمبر 2, 2018

رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھے؟

سوال:امام صاحب نے رمضان المبارک میں وتر کی نماز میں دعاء قنوت سہواً ترک ہوجانے کی وجہ سے رکوع کیا،یاد آنے پر قومہ میں دعائے قنوت پڑھی، مگر دوبارہ رکوع نہیں کیا، بلکہ سیدھے سجدے میں چلے گئے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلی۔

۱-دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟

۲-اور کیا ایسی شکل میں امام کے لئے استغفار لازم اورضروری ہے؟

کیوں کہ صورت مسؤلہ میں ایک مقتدی نے باقاعدہ ایک فقہی تمہید قائم کرنے کے بعد اس مسئلہ کو اس طرح سے مفتی صاحبان سے دریافت کیا کہ واجب چھوٹ جانے کے بعد فرض کو ادا کرنے کے بجائے دوبارہ واجب کی طرف لوٹنا کیسا ہے؟مثلاً امام دعائے قنوت پڑھنا بھول گیااور رکوع کرلیا یا رکوع کی حالت میں آنے کے بعد رکوع چھوڑکر دوبارہ قیام کی طرف لوٹ کر دعاء قنوت پڑھی یا سہواً قعدۂ اولیٰ چھوڑکر کھڑا ہوگیا،پھر لقمہ ملنے پر قعدہ کیا،تو پھر ان صورتوں میں نماز کے صحیح ہونے کی کیا صورت ہوگی؟ تو مفتی صاحبان نے جواب تحریر فرمایا کہ صورت مسؤلہ میں مفتی بہ قول یہ ہے کہ فرض کو چھوڑکر واجب کی طرف پلٹنے سے نماز فاسد نہ ہوگی،البتہ ادائیگی فرض میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا اور فرض سے واجب کی طرف عود کے سبب خاطی وگنہگار ہوگا،اس لئے رکوع میں جانے کے بعد دوبارہ دعائے قنوت کے لئے کھڑا ہونا خطا ہے،اسی طرح قعدۂ اولیٰ چھوٹ جانے پر قیام سے پھر قعدہ کی طرف لوٹنا برا ہے، اس کے لئے سجدہ سہو کیساتھ استغفار بھی کرنی چاہئے تاکہ غلطی کا تدارک استغفار سے ہوسکے۔

ھــوالــمـصــوب:

نماز ہوگئی کیوں کہ ارکان صلاۃ میں سے رکن کا ترک نہیں ہوا:

فإن عاد الیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ لکون رکوعہ بعد قرائۃ تامۃ(۱)

استغفار لازم اور ضروری تو نہیں لیکن اسائت کا وجود اس کی طرف سے اس حکم شرعی کی لاعلمی کی وجہ سے پایا جارہا ہے اورجب حکم شرعی جاننے میں کوئی مانع نہیں تو لاعلمی کا عذر معتبر نہ ہوگا،بخاری میں عبداﷲ بن بحینہ سے روایت ہے کہ قعدہ اولیٰ کے ترک میں آپ ﷺ قعدہ کی طرف واپس نہیں ہوئے تھے بلکہ سجدہ سہو ہی کیا تھا(۲) لہذا جس نے اس کے خلاف کیا اس نے سنت ترک کیا اور سنت کا ترک اساء ت ہے، لہذا وہ شخص مسییٔ ہے اور مسییٔ کو حسنۃ کے ذریعہ سیئۃ کو دور کرنا چاہئے:

ان الحسنات یذھبن السیئات(۳)

مفتی صاحبان نے غالباً اسی نص کو مدنظر رکھ کر استغفار کا مشورہ دیا ہے،رسول اﷲ ﷺ معصوم ہونے کے باوجود کثرت سے استغفار فرماتے تھے، اگر کسی مسلمان سے ایک سیۂ پایا گیا اس سے کہا گیا کہ آپ کو استغفار کرنی چاہئے،اس میں کوئی غلط بات تو نہیں کہی گئی،جہاں تک مفتی بہ کا تعلق ہے تو وہ قیل سے نہیں ہے بلکہ ’وھوالأشبہ‘ سے ہے(۱) یا:

کما لو سہا عن القنوت فرکع فإنہ لوعاد وقنت لا تفسد علی الأصح (۲)

سے ہے، بہرحال میرے نزدیک مفتی صاحبان کا جواب درست ہے،کسی طرح کی تقصیر نہیں ہے، اور مستفتی نے بھی اپنے استفتاء میں کوئی گستاخی نہیں کی ہے، شرعی حکم جاننے کے لئے، اس کو استفہام کا پورا حق حاصل ہے۔

تحریر:محمدطارق ندوی       تصویب:ناصر علی ندوی