قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰۃکس طرح نکالی جائے

قرض پرزکوۃ سے متعلق چند سوالات
ديسمبر 19, 2022
مقروض پرزکوۃ نہیں
ديسمبر 19, 2022

قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰۃکس طرح نکالی جائے

سوال:۱-زید نے بکر کو بطور قرض ۹۰۰۰۰؍روپئے ادھار دیئے(۳؍ سال قبل) اور مسلسل تین سال سے ان روپیوں کی زکوٰۃ بھی ادا کرتا آرہا ہے۔ یہ روپیہ ابھی ملنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس سال ۹۰۰۰۰؍ روپیوں کی زکوٰۃ نکالنا ہوگا یا ملنے کے بعد جبکہ زید خود پہلے سے ہی صاحب نصاب ہے؟

۲-اگر دو سال بعد ان روپیوں میں سے ۵۰۰۰۰؍ روپئے مل جائیں تو کیا ۹۰۰۰۰؍ کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی یا ۵۰۰۰۰؍ روپئے کی؟

۳- چونکہ روپئے دو سال بعد ۵۰۰۰۰؍ ملے ہیں تو کیا دو سال کی زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا؟یا ایک سال کی ادا کرنا پڑے گا، وہ بھی کتنی رقم پر، جواب عنایت فرمائیں۔

ھــوالمصــوب:

۱-صورت مسئولہ میں اگر سال بہ سال ادا کرتے رہیںتوزکوۃ اداہوجائے گی، ورنہ رقم ملنے کے بعد جتنے سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے ادا کریں۔(۱)

۲- صورت مسئولہ میں مجموعی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی۔

۳- دونوں سال کی زکوۃ مجموعی رقم(90,000)پرواجب ہوگی۔

تحریر: محمد مستقیم ندوی                  تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال:۱-زید کہتا ہے اس بکر سے جو حکومت کے کسی بھی سرکاری شعبہ سے وابستہ ہے کہ تمہاری اجرت یعنی تنخواہ میں سے جو فنڈ حکومت اپنے پاس جمع کرتی رہتی ہے اور وقتاً فوقتاً یعنی ضرورت پڑنے پر تم جس کو نکال بھی سکتے ہو اور ریٹائرڈمنٹ ہونے پر بھی آپ کی ذاتی رقم ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری رقم مع سود کے آپ کو ملتی ہے اور ہرسال جس کی آپ کو اطلاع بھی دی جاتی ہے کہ اکائونٹ میں اتنے پیسہ جمع ہیں، لہذا اس فنڈ پر زکوۃ دینا فرض ہے،کیوںکہ یہ آپ کی رقم ہے،آپ کے نجی بینک اکائونٹ میں اتنے پیسے جمع ہیں۔ لہٰذا اس فنڈ پر زکوۃ دینا فرض ہے،کیوںکہ یہ آپ کی رقم ہے الگ آپ کے نجی بینک اکائونٹ میں جمع نہ ہوکر مجموعی طریقہ پر آپ کے نام سے جمع ہوئی ہے، اس پر زکوۃ دینا چاہئے؟

۲-زید ایک ایسے تاجر سے کہتا ہے کہ جو اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے اپنے مال کو کسی ایسے شخص کو دیتا ہے جس سے تجارتی لین دین اس طریقے پر ہوتا ہے کہ اس کو پچھلی رقم کا حساب کرتا ہے پھر اگلا مال دے کر پچھلی بقایا رقم لیتا ہے، اس طرح سے تجارتی لین دین ہوتا ہے، اس لئے زید کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ کے ادھار دینے کی وجہ سے آپ کا لین دین قائم ہے، یہ پیسہ آپ کا تجارتی سرکولیشن یعنی لین دین میں ہے اور آپ کی ملکیت ہے جس کی زکوۃ نکالنا آپ پر فرض ہے، کیوںکہ یہ بھی آپ کی ذاتی رقم ہے، جوکہ سرکولیشن میںہے،اور جس کو مال آپ قرض دیتے ہیں وہ اس مال کی زکوۃ نہیں نکالے گا، تو زید اس تاجر سے کہتا ہے کہ جب تک آپ کا تعلق تجارتی اس سے برقرار ہے وہ رقم سرکولیشن میں ہے، لہذا اس پر بھی زکوۃ ہے، کیوں کہ یہ رقم کبھی چکتا ہوگی ہی نہیں کیوںکہ آپ دوبارہ اس کو مال دیںگے، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا؟

۳-زید ان صاحب ثروت وصاحب جائیداد لوگوں سے کہتا ہے جو بیرون ہندوستان میں بڑے بڑے شہروں میںفلیٹ لے کر چھوڑدیتے ہیں، اور کبھی کبھی بغرض سیروسیاحت جب ان شہروں میں جانا ہوتا ہے، تب ان فلیٹوں میں قیام کرتے ہیں، ورنہ یہ فلیٹ بھی خالی پڑے رہتے ہیں۔ لہذا ان کی قیمتوں کے لحاظ سے یا کرایہ کے حساب سے زکوۃ دینا فرض ہے، کیوںکہ آپ کے رہائشی مکان سے زیادہ آپ کی ملکیت ہے، جو آپ نے اخراجات کے علاوہ پیسے کی زیادتی کی وجہ سے خرید خرید کر ڈال رکھا ہے، وہ بھی آپ کی پونجی ہے؟

ھــوالمصــوب:

۱-پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر زکوۃ واجب نہیںہے، اس لئے کہ زکوۃ واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ فنڈ پر قبضہ بھی ہو اور پراویڈنٹ پر قبضہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے،لہٰذا اس پر قبضہ سے قبل زکوۃ واجب نہیں ہے۔(۱)

۲-مذکورہ تجارتی طریقے میں جو رقم دوسروں کے پاس رہتی ہے، وہ دین مرجو میںہے، یعنی ایسا قرض ہے جس کی وصولیابی کی امید ہے، اس لئے اس پر زکوۃ واجب ہوگی(۲)، تجارتی سرکولیشن میں جو بھی مال ہے وہ خود اس کا مال تجارت ہے، اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔

۳-رہائشی مکانات جو محض رہائش ہی کی غرض سے ہوں، خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہو اور ان کی مالیت کتنی ہی کیوں نہ ہو ان پر زکوۃ واجب نہیںہے۔(۳)

تحریر:محمد ظفرعالم ندوی    تصویب:ناصر علی

سوال مثل بالا

سوال:۱-پراویڈنٹ فنڈ جائز ہے؟ کیا اس پر زکوۃ واجب ہے؟

(الف)۲۰سال بعد (سروس کے) اسی جمع شدہ رقم میں سے ۵۰فیصد نکال سکتے ہیں، مگر اس رقم کو واپس نہیں کرناہوگا۔

(ب)باقی بچا ہوا روپیہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملتا ہے۔

(ج)ملازم کو -/۸۰۰روپے تنخواہ میں سے کٹانا لازم ہوتا ہے، اس کے علاوہ ملازم کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ آٹھ سو روپئے سے زائد رقم اپنی تنخواہ میں سے کٹاسکتا ہے، اور اس زائد رقم پر بھی سود ملتا ہے اور اس زائد رقم کے لئے بھی وہی اصول ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔

۲-زید انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے -/۸۰۰ روپیوں سے زائد اپنی رقم اپنی تنخواہ میں سے وضع کرواسکتا ہے یا نہیں؟

۳-اگر جائز ہے تو گیارہ فیصدی سود اس رقم پر لینا کیسا ہے؟ اور اس زائد رقم پر ہرسال زکوۃ ادا کرنی پڑے گی یا رقم ملنے کے بعد زکوۃ ادا کرنی پڑے گی؟

ھــوالمصــوب:

۱-آپ کے لئے استعمال درست ہے اور قبضہ میں آنے کے بعد اس پر ایک سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہوگی۔(۱)

۲-حکومت کے مقرر کردہ اصول سے زائد جو ملازم اپنی مرضی سے انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے رقم کٹواتا ہے اس پر ملنے والی رقم سود نہیںہے۔(۲)

۳-گیارہ فیصد زائد رقم سود نہیں ہے، رقم ملنے اور اس پر حولان حول ہونے کے بعد ہی زکوۃ واجب ہوگی۔

تحریر:محمد مستقیم ندوی                 تصویب:ناصر علی