نماز وتر اوردعائے قنوت سے چندسوالات

 وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے
نوفمبر 4, 2018
فجرکی سنت کب تک پڑھ سکتے ہیں؟
نوفمبر 4, 2018

نماز وتر اوردعائے قنوت سے چندسوالات

سوال:۱-کیا رمضان المبارک میں شافعی المسلک والے وتر کی نماز الگ باجماعت امام کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں؟ جبکہ بیس رکعت حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر شافعی مسلک والے وتر الگ کیوں پڑھتے ہیں؟

۲-رمضان المبارک میں شافعی مسلک والے وتر کی نماز میں سولہویں رات سے دعائے قنوت پڑھتے ہیں، کیا یہ دعائے قنوت پہلی رات سے پڑھنی شروع کریں تو کچھ حرج ہے؟ حضور ﷺ دعاء قنوت کب پڑھاکرتے تھے، وتر کی نماز میں یا صبح کی نماز میں؟

ھــوالــمـصــوب:

۱-شافعی حضرات وتر الگ باجماعت پڑھ سکتے ہیں، اگر دوسری جگہ ہو۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ ساتھ ہی پڑھیں۔ ان کے یہاں وتر تین رکعت ایک سلام سے بھی جائز ہے(۱)

قرآن مجید میں اور حدیث شریف میں اتفاق اور ایک جماعت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور نماز کی جماعت اتحاد کا مظہر ہے۔ اسی لیے علماء بھی اتحاد واتفاق کو مستحبات وغیرہ پر ترجیح دی ہے۔ اس کی بھی صراحت کی ہے کہ مستحبات کو ائتلاف واتفاق کے لئے ترک کردینا مستحب ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

ویستحب الرجل أن یقصد الیٰ تألیف القلوب بترک ھذہ المستحبات لأن مصلحۃ التألیف فی الدین أعظم من مصلحۃ فعل مثل ھذا کما ترک النبیﷺ تغییر بناء البیت لما فی إبقاۂ من تألیف القلوب وکما أنکر ابن مسعود علی عثمان إتمام الصلاۃ فی السفر ثم صلّی خلفہ متماً وقال: الخلاف شر(۲)

علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:

والذی یمیل إلیہ القلب عدم کراھۃ الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع فی الفرائض لأن کثیراً من الصحابۃ والتابعین کانوا أئمۃ مجتھدین وھم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاھبھم(۱)

لکن فی وتر البحر:إن تیقن المراعاۃ لم یکرہ(۲)

قولہ’إن تیقن المراعاۃ‘أی المراعاۃ فی الفرائض من شروط وأرکان فی تلک الصلاۃ، وإن لم یراع فی الواجبات والسنن کما ھو ظاھر سیاق کلام البحر(۳)

۲-حضور ﷺ نے فجر میں بھی قنوت پڑھا ہے اور وتر میں بھی لیکن فجر میں خاص موقع سے قنوت نازلہ پڑھا تھا۔ وترمیں پابندی سے پڑھا(۴) امام شافعیؒ کا کہنا یہ ہے کہ فجر کا قنوت مستقل سنت ہے۔ وتر میں صرف رمضان کے نصف اخیر میں مسنون ہے(۵) یہ امام شافعی کا اجتہاد ہے جو قرآن وحدیث پر ہی مبنی ہے اور وہ مجتہد تھے۔ شریعت نے مجتہد کے اجتہاد کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی تقلید جائز ہے اور شوافع اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔

تحریر:محمد علی لکھنوی ندوی       تصویب:ناصرعلی ندوی