مسجد میں جنازہ پڑھنا

مسجد میں جنازہ پڑھنا
نوفمبر 11, 2018
مسجد میں جنازہ پڑھنا
نوفمبر 11, 2018

مسجد میں جنازہ پڑھنا

ہمیں علماء نے مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا مکروہ تحریمی بتایا ہے اور اسباب

(۱) الفتاویٰ الہندیہ، ج۱،ص:۱۶۵   (۲) الفتاویٰ الہندیہ، ج۱،ص:۱۶۵

میں شاید مردہ کے بدن سے نجاست بھرا گندہ پانی یا خون نکل کر مسجد کو گندہ نہ کردے، یہ بات شاید گرم ملکوں میں صحیح ہو؟

برطانیہ اور یورپ کے ملکوں میں مردہ کو اسپتال سے بھی بغیر صندوق کے لے جانے کی اجازت نہیں ہے، صندوق لکڑی کا ہوتا ہے اور صندوق میں ہی غسل وغیرہ دے کر دفنایا جاتا ہے ، صندوق میں سے نجاست والا مادہ باہر آہی نہیں سکتا اور مسجد کو گندہ کرے ممکن نہیں۔

۱-برطانیہ میں بارش کا موسم نہیں ہے، دوچار دنوں میں اکثر بارش ہوہی جاتی ہے جاڑوں کے موسم میں بارش ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ برفیلی ہوا اور برف باری بھی ہوتی ہے، فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے نماز جنازہ قبرستان میں کھلے میدان میں ہوتی ہے، جاڑوں میں ٹھنڈی ہوا اور برف باری میں بھی یہی عمل رہا ہے جس سے لامحالہ کئی لوگ بیمار ہوجاتے ہیں اور ضعیف لوگ نماز جنازہ سے محروم رہتے ہیں۔ لندن برمنگھام اور دیگرشہروں میں نماز جنازہ ہرموسم میں باقاعدہ مسجد ہی میں ہوتی ہے،مگر ہمارے چند گجراتی علماء جن کا تعلق دیوبند سے ہے آج تک جنازہ کی نماز مسجد میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس وجہ سے عام مسلمانوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے؟

۲-راندیر (سورت) کی چنارواڑہ مسجد اور برطانیہ میں اکثرمساجد (جن کے ائمہ وخطیب کا دیوبند سے تعلق ہے) خطبۂ جمعہ سے آدھا گھنٹہ قبل تقریر کرتے ہیں ان میں کچھ علماء کرام منبر کے پاس کھڑے ہوکر اور کچھ علماء منبر پر بیٹھ کر تقریر کرتے ہیں اور جو عالم منبر پر بیٹھ کر تقریر کرتے ہیں وہ مسجد میں فرش پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے حضرات کو تلاوت سے روکتے ہیں کہ قرآن کی تحقیر نہ ہو، جو حضرات تقریر کرتے ہیں ان کا خطبہ کے مضامین سے دورکا بھی تعلق نہیں ہوتا اور جولوگ مسجد میں پہلے سے آتے ہیں اور نوافل اور تلاوت کرتے ہیں ان کو تقریر سے کوفت اور خلل ہوتا ہے۔ کیا یہ تقریر کا سلسلہ اصحاب رسولؐ اور ان کے زمانہ سے ملتا ہے اگریہ سلسلہ اس زمانہ کی ایجاد ہے تو اسے بدعت سے تعبیر کرسکتے ہیں؟ کیا نوافل اور تلاوت ترک کرکے تقریر کا سننا افضل ہے یا تلاوت اور نوافل تقریر سے افضل ہے؟

۳-گلوسٹر میں جامع الکریم میں عورتوں کیلئے خاص جگہ کا انتظام ہے، دخول بھی جدا ہے اور جائے حاجت اور وضو کیلئے بھی انتظام ہے، مردوں اور عورتوں کا اختلاط ممکن نہیں ہے، فقط لاؤڈاسپیکر پر عورتیں نماز باجماعت پڑھ سکتی ہیں، یہاں پر 14 انگریز عورتیں اسلام قبول کرچکی ہیں اور چند دنوں پہلے میرے غریب خانہ پر آکر مسجد میں جمعہ وغیرہ (تراویح) کی اجازت چاہی، چونکہ ہمارے پرانے امام صاحب نے کہا تھا کہ اگر مسجد میں عورتوں کو نماز کی اجازت دی گئی تو وہ مصلی چھوڑکر چلے جائیں گے، لہذا فتویٰ پوچھ کر ان خواتین کو فتویٰ دیا جائے گا کہہ کر بات ٹال دی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، ترکی میں، یورپ میں اور دہلی کی جامع مسجد میں مستورات کو باقاعدہ جمعہ ادا کرتے دیکھا ہے ، برطانیہ میں لندن برمنگھام اور دیگر شہروں اور جگہوں پر عورتیں مسجد میں نماز ادا کرتی ہیں، مجھے ایک عالم دین نے بتایا ہے کہ فتویٰ تو یہ ہے کہ اگر کسی کی بیوی مسجد میں نماز ادا کرنا چاہے تو خاوند اسے نہیں روک سکتا ،کہاں تک یہ فتویٰ درست ہے؟ بعض علماء نے بتایا کہ مسجد میں عورتوں اور مردوں کا ملاپ فتنہ برپا کرسکتا ہے،بھلا ان سے کہا جائے کہ فتنہ ہی اگر کرنا ہے تو پاتال میں بھی کرسکتے ہیں، خدارا اس مسئلہ پر خوب غوروخوض کریں اور جس کام کو ﷲ کے رسول اور خلفاء راشدین نے نہیں روکا اس کو اسی زمانہ میں کیوں روکا جارہا ہے یہاں کی اوپن سوسائٹی ہے اور غیرمسلم طعنہ دے رہے ہیں کہ مسلم خواتین ڈلیٹ کے معنی ہیں اور سکنڈ کلاس شہری ہیں۔

ھــوالــمـصــوب:

۱- عذر مذکور پایا جارہا ہو تو مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے(۱) حضور اکرم ﷺ نے سہل بن بیضاءؓ کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی ہے(۲) لیکن بلاعذر مسجد میں نماز جنازہ ادا نہ کی جائے،آپؐ نے فرمایا ہے:

من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلا شئی لہ(۳)

مسجد میں نماز جنازہ کی ممانعت کی علت صرف تلویث مسجد ہی نہیں ہے، اس کے دوسرے مصالح بھی ہیں۔

۲- ایسے وقت میں وعظ کہنا کہ جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو اور بعض سنتوں سے رہ جائیں وعظ نہ کہنا چاہئے کیوں کہ فقہاء یہ تصریح فرماتے ہیں کہ ذکر بالجہر یا تلاوت بالجہر سے اگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو تو اس طرح ذکرﷲ وغیرہ نہ کرنا چاہئے اس لئے ایسے وقت میں وعظ نہ کہنا چاہئے اور احتراز کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سنت پڑھنے کاموقع دیا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے،دین سے متعلق تقریر کرنا بدعت نہیں ہے ۔

ایسی صورت میں مسجد جانے کی گنجائش ہے، البتہ زمانہ کے فتنہ کی وجہ سے نہ جانا بہتر ہے۔

۲-مذکورہ صورت میں موقع ومحل کے اعتبار سے عمل کرنا چاہئے۔

۴-عورتوں کیلئے احتیاط اور پردہ کی زیادہ ضرورت ہے، جلب منفعت سے دفع مضرت مقدم ہے، اس لئے فقہاء کرام نے عورتوں کو جماعت وجمعہ وعیدین نیز وعظ کی مجالس میں شامل ہونے کو مکروہ فرمایا ہے۔ درمختار میں ہے:

(۱)وقیل لا یکرہ إذا کان المیت خارج المسجد وھومبنی علی أن الکراھۃ لاحتمال تلویث المسجد والأول ھوالأوفق لإطلاق الحدیث کذا فی فتح القدیر۔البحرالرائق، ج۲،ص:۳۲۷

(۲) ماصلی رسول ﷲ ﷺ علی سھیل بن البیضاء إلا فی المسجد۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز ،باب الصلاۃ علی الجنائز، حدیث نمبر:۹۷۳

(۳)من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلیس لہ شیٔ۔سنن ابن ماجۃ، ابواب ماجاء فی الجنائز، باب ماجاء فی الصلاۃ علی الجنائز فی المسجد، حدیث نمبر:۱۵۱۷

یکرہ حضورھن الجماعۃ ولولجمعۃ وعید ووعظ مطلقاً(۱)

جہاں آپ قیام پذیر ہیں وہاں تو عریانیت وفحاشی کے اسباب دیگر جگہوں کے مقابلہ میں زیادہ ہیں ۔ لہذا فتنہ کے اندیشہ قوی کے پیش نظر مردوں کی جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔

تحریر:محمدمستقیم ندوی                تصویب: ناصر علی ندوی