اذان ثانی کہاں دی جائے؟

اذان ثانی کہاں دی جائے؟
نوفمبر 10, 2018
خطبہ کی اذان سے متعلق ایک اعتراض کا جواب
نوفمبر 10, 2018

اذان ثانی کہاں دی جائے؟

سوال:۱-نیچے لکھی ہوئی حدیث ابوداؤد کی عبارت کیا صحیح ہے؟ اس کی تصدیق کردیجئے۔

۲-حضرت امام اعظم کے تحت کیا طریقہ ہے؟

۳-آگے کی صف سے خطبہ کی اذان کس امام کے مسئلے سے ہے؟

۴-آگے کی صف سے خطبہ کی اذان کس زمانہ میں رائج ہوئی اور کس نے رائج کی؟

ھــوالــمـصــوب:

۱-ابوداؤد کی یہ روایت صحیح ہے(۴)

(۱)سنن أبی داؤد،کتاب السنۃ،باب لزوم السنۃ،حدیث نمبر:۴۶۰۹

(۲) نیل الأوطار، کتاب الجمعۃ،باب تسلیم الامام اذا رقی المنبر،ص:۶۳۱

(۳)حوالہ سابق

(۴) سنن أبی داؤد، تفریع أبواب الجمعۃ، باب النداء یوم الجمعۃ، حدیث نمبر:۱۰۸۳

۲-احناف کے نزدیک اذان ثانی منبر کے پاس امام کے سامنے دی جائے گی(۱)

۳-جمہور ائمہ اسی مسلک کے قائل ہیں اور اس پر اجماع صحابہ ہے۔

۴-حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دور خلافت میں عوام کی کثرت کی وجہ سے ایک اذان کا اضافہ فرمایا تاکہ لوگ اپنی مصروفیات چھوڑکر جمعہ کی جانب متوجہ ہوجائیں، یہ اذان مسجد کے باہر سے ابتداء وقت دی جاتی تھی(۲) اب اذان ثانی یعنی خطبہ کی اذان میں مسجد کے باہر اعلام کی ضرورت باقی نہیں رہی، لہذا دور عثمانی سے قبل کے مثال باہر سے اذان دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی، ابوداؤد کی اس روایت کے مفہوم سے ظاہر ہے کہ دور عثمان سے خطبہ کی اذان علی باب المسجد نہیں دی جاتی تھی۔

نوٹ:اس طرح کے مسائل چھیڑ کر مسلمان عوام میں انتشار پیدا ہوتا ہے، اس کو دین کی خدمت نہیں کہا جاسکتا، آپ غور کریں اگرکسی نے خطبہ کی اذان مسجد کے اندر یا باہر دی تو کونسا گناہ کبیرہ کیا ؟ کیا کسی کتاب میں لکھا ہے کہ اس کی آخرت میں پکڑہوگی۔ناصرعلی

تحریر:ساجد علی      تصویب: ناصر علی ندوی