مختلف اوقات سے متعلق ایک سوال

صبح صادق کے وقت عشا ء کی نماز
نوفمبر 1, 2018
اوقات صلوۃ میں اختلاف
نوفمبر 1, 2018

مختلف اوقات سے متعلق ایک سوال

سوال:۱-کیا عشاء کے وقت ابتداء کیلئے (یعنی غیبوبت شفق ابیض کیلئے) یہی اصول ہے کہ شفق ابیض اس وقت غائب ہوجاتی ہے جب سورج ۱۸درجہ افق سے نیچے پہنچ جاتا ہے؟

۲-اگر اصول یہی ہے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جتنا وقت صبح صادق بعد طلوع شمس کے درمیان ہوگا بالکل اتنا ہی وقت غروب شمس اور غیبوبت شفق ابیض کے درمیان ہوگا؟

۳-موسم گرما میں جبکہ ہمارے یہاں لیسٹر (برطانیہ) مغرب کی نماز ۳۰․۹ (ساڑھے نوبجے) ہوتی ہے، عشاء کا وقت اس اصول پر تقریباً ۳۰․۱۱ (ساڑھے گیارہ بجے) ہوگا اور فجر تقریباً ۱۵․۴ (سواچاربجے) پڑھنی ہوگی کیوں کہ ۴۵․۴ (پونے پانچ بجے)پر سورج طلوع ہوجاتا ہے ، ان ایام میں دفع حرج کیلئے غروب کے ایک گھنٹہ بعد نماز عشاء یہاں (برطانیہ کے شہر لیسٹر میں) پڑھنے کا معمول ہے اس میں گنجائش ہوگی یا نہیں؟

۴-اگر موسم سرما میں سورج کے زیر افق ۱۸درجہ پہنچنے سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لی جائے ، جبکہ مجبوری نہیں ہے تو اس کا کیا حکم ہے(موسم سرما میں مغرب چار بجے ہوگی اور عشاء کا اول وقت ۱۸درجہ کے حساب سے تقریباً چھ بجے ہوگا)

۵-مذکورہ صورت میں یعنی موسم سرما میں جبکہ مجبوری نہیں اگر کوئی شخص صاحبین کے قول سے استدلال کرکے غروب کے سوا گھنٹے (ایک گھنٹہ پندرہ منٹ) بعد شفق احمر کے غائب ہونے پر عشاء کی نماز پڑھ لے تو کیا حکم ہے؟ مساجد میں باقاعدہ اس وقت نماز باجماعت ہو تو کیا حیثیت ہے؟

۶-اگر گنجائش نہیں تو اب تک جن حضرات نے اس کو حق سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے ان کے ذمہ ان نمازوں کی قضا ہوگی یا وہ معذور سمجھے جائیں گے؟

ھــوالـمـصـــوب:

۱-عشاء کی ابتداء حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق شفق ابیض کے غروب پر ہوتی ہے(۱)جو معتبر اہل ہیئت کے قول کی رو سے سورج کے ۱۸درجے افق سے نیچے پہنچنے کے بعد ہوتی ہے۔ عموماً اسی کو اختیار کرلیا گیا ہے۔

۲-صبح صادق اور طلوع شمس کے درمیان جس روز جتنا وقفہ ہوتا ہے اس روز اتنا ہی وقفہ، سورج کے غروب اور شفق ابیض کے غائب ہونے کے درمیان ہوتا ہے،جس کی صراحت بہت سے فقہاء جن میں حضرت تھانویؒ بھی ہیں نے کی ہے(۱)

۳-وقت آنے سے پہلے نماز پڑھنے کی گنجائش ’إن الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتاً‘ (۲)کے خلاف ہوگا اگر پڑھ لی جائے گی تو فرض ادا نہ ہوگا، اس لئے وقت آنے کے بعد دوبارہ پڑھنا ہوگی، البتہ وقت گزرنے کے بعد پڑھی گئی نماز قضا ہوجائے گی، چاہے اسے ادا کی نیت سے پڑھا گیا ہوگا، دفع حرج کے بہانے سے قبل از وقت نماز پڑھنا صحیح نہ ہوگا۔ (تفصیل کے لئے راقم الحروف کی کتاب ’موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل‘ کا متعلقہ حصہ دیکھا جائے)۔

۴-جب مجبوری میں قبل از وقت نماز فرض پڑھنا درست نہیں تو بغیر مجبوری کے بطریق اولیٰ درست نہ ہوگا۔

۵-بمشورۂ علمائے راسخین اگر صاحبین کا قول اختیار کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے ، مگر انفرادی طور پر کسی ایک متقی عالم کے قول کو اختیار کرنا یعنی جمہور کے قول سے گریز کرنا درست نہیں۔

۶-اختلافی واجتہادی مسائل میں فی الجملہ گنجائش ہوتی ہے کہ کسی ایک قول کو اختیار کرنے یا ترک کرنے کی ،اس بناء پر تفسیق یا تضلیل کرنا صحیح نہیں، اگر وقت سے پہلے پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ کرلیا جائے تو انسب ہے، کیوں کہ محل اختلاف میں اختلاف سے بلند ہوکر عمل کرنا ہی پسندیدہ ہے کہ اس سے برأۃ ذمہ بالیقین ہوجاتی ہے، ورنہ شبہ رہ جاتا ہے اور شبہات سے بچنا دین وآبرو بچانے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے ازروئے حدیث شریف مطلوب ہے۔

فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ(۳)

تحریر:برہان الدین سنبھلی