تعزیہ اور ماتم کرنے والے کی امامت

بدعتی امام کی امامت
نوفمبر 3, 2018
اہل حدیث کے پیچھے نماز
نوفمبر 3, 2018

تعزیہ اور ماتم کرنے والے کی امامت

سوال:۱-ایک شخص محرم کی رسومات (تعزیہ داری، ماتم وغیرہ) کو ادا کرنے والا ہے، وہ لوگوں کی امامت کرتا ہے جبکہ اکثر لوگ ان رسومات کے قائل نہیں ہیں اور عالم اور حافظ بھی موجود ہیں، کیا مذکور شخص کی امامت جائز ہے ؟نماز ہوجائے گی یا نہیں؟

(۱) حاصل الجواب فیہ أن کل من کان من أھل قبلتنا ولم یغل فی ھواہ حتی لم یحکم بکونہ کافراً ولا یکون ماجنا بتأویل فاسد وفی الذخیرۃ ولکنہ مال عن الحق بتأویل فاسد تجوز الصلاۃ خلفہ۔ الفتاویٰ التاتارخانیہ،ج۱،ص:۳۷۶

(۲)عن ابن عباسؓ قال: الدف حرام والمعازف حرام والکوبۃ حرام والمزمار حرام۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الشہادات، باب ما جاء فی ذم الملاھی والمعازف والمزامیر ونحوھا، حدیث نمبر:۲۱۰۰

وفی البزازیۃ: استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیہ السلام استماع الملاھی معصیۃ والجلوس علیھا فسق والتلذذ بھا کفر أی بالنعمۃ۔ درمختار مع الرد،ج۹،ص:۵۰۴

۲-اگر مذکورہ امام تاخیر سے آتا ہے اور کوئی اور نماز پڑھانے لگے تو جماعت میں شریک نہیں ہوتا اور اپنی الگ جماعت کرکے نماز ادا کرتا ہے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟

ھـو المـصـوب

۱-تعزیہ داری کرنے والا اور ماتم کرنے والا شخص فاسق ہے(۱) ایسے شخص کی امامت مکروہ ہے۔ اگر دوسرے صحیح العقیدہ لائق امامت افراد موجود ہوں تو مذکور امام کے بجائے صحیح العقیدہ لائق امامت کسی فرد کو امام بنایا جائے لیکن حکمت عملی ملحوظ ہو تاکہ نزاع نہ ہو۔

۲-فاسق امام کی تاخیر میں دوسرے شخص جو امامت کے لائق ہو نماز پڑھائے، فاسق امام کا انتظار نہ کیا جائے۔

تحریر:ساجد علی      تصویب: ناصر علی ندوی