سوال:۱-ایسے شخص کی امامت کیسی ہے جو وضو میں ایک ایک عضو تین
(۱)والأحق بالإمامۃ…… الأعلم بأحکام الصلاۃ…… بشرط اجتنابہ للفواحش الظاھرۃ۔درمختار مع الرد،ج۲،ص:۲۹۴
قولہ ’’بشرط اجتنابہ‘‘…… وعبارۃ الکافی وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ فی دینہ لأن الناس لا یرغبون فی الا قتداء بہ۔ ردالمحتار،ج۲،ص:۲۹۴
بار کے بجائے چارچار پانچ پانچ مرتبہ دھوئے اور بے انتہا پانی بہائے کہنے پر بھی اصلاح نہ کرے؟
۲-انہوں نے ایک ماہ قبل کسی پیرومرشد کے بجائے حاجی وارث علی کی قبرسے اپنے کو بیعت کیا اور ان کو ان کی طرف سے یہ ہدایت ملی ہے کہ گیروالباس پہنیں؟
۳-علماء کرام کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ، ان کے بقول دیوبندی مسلک کے تمام اداروں میں کوئی بھی صاحب علم نہیں؟
۴-اپنے وہم اور دوران وضو اعضاء باربار دھونے کی وجہ سے نماز کافی تاخیرسے پڑھاتے ہیں، خصوصاً فجر کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھاتے ہیں کہ سورج طلوع ہونے سے قبل طوال مفصل سے نماز پڑھنا ممکن نہیں؟
۵-ان متعدد اعمال کی وجہ سے مقتدیوں کی کافی تعداد مسجد سے کنارہ کش ہوتی جارہی ہے، اور ان کے عقیدہ کے متعلق شک وشبہ کا شکار ہے؟
ھـو المـصـوب
مذکور شخص کے اعمال درست نہیں ہیں، ان کے عقائد بھی اہل سنت والجماعت کے عقائد کے منافی ہے، اس لئے امامت مکروہ تحریمی ہے(۱)
تحریر:محمد ظفرعالم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی