سوال:۱-مسجد کا امام نہ حافظ ہے، نہ قاری ہے، نہ عالم، نہ عامل، وہ مقتدیوں سے اکثر وبیشتر ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا کرتا رہتا ہے، اگر مقتدی صبر سے کام نہ لیں تو مارپیٹ کی نوبت آجائے؟
۲-مسجد سے ملا ہوا مکان امام کو دیا گیا ہے، اس کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا ہے جس سے نماز کے وقت امام صاحب کے بچے نیکر پہن کر مسجد میں آجاتے ہیں، بارہا تنبیہ کے باوجود امام صاحب بچوں کو روک نہیں سکے، اور الٹا بچوں کی طرف سے مقتدیوں سے لڑتے ہیں، اور مقتدیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔
۳-ایسی صورت میں اگر سارے مقتدی مسجد چھوڑدیتے ہیں تو مسجد ویران ہوجائے گی یا امام صاحب کو امامت سے ہٹادیا جائے، کیا بہتر رہے گا؟
۴-ایسی صورت حال میں کہ مقتدی امام کے مخالف اور امام مقتدیوں کا مخالف، تو کیا امام کے پیچھے مقتدیوں کی نماز ہوجائے گی؟
ھـو المـصـوب
۱،۲،۳،۴- امام صاحب کا مذکور عمل وقول درست نہیں ہے، ایسے بچوں کو مسجد میں آنے یا لانے
(۱) ولأن فی تقدیم ھولاء تنفیر الجماعۃ فیکرہ وإن تقدموا جاز۔ الہدایۃ مع الفتح،ج۱،ص:۳۶۱
سے روکنا چاہئے جو مسجد کا احترام نہ کریں، حدیث میں ہے:
جنبوا مساجدکم صبیانکم(۱)
بچوں کی وجہ سے نماز مکروہ نہ ہوگی، اگر امام صاحب مذکورہ عمل سے باز نہ آئیں تو مسجد کے ارباب حل وعقد کو اختیار ہے کہ امام صاحب کو خوش اسلوبی کے ساتھ بر طرف کردیں، مقتدیوں کا مسجد چھوڑنا درست نہیں ہے، لیکن کوئی کام جذباتیت سے نہ کیا جائے، مقتدی دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ان کو امامت سے علیٰحدہ بھی کرسکتے ہیں لیکن حتی الامکان نزاع سے گریز کریں ۔
تحریر: محمد مستقیم ندوی تصویب: ناصر علی ندوی