سوال:۱-زید نے نصاب کی حد سے متجاوز رقم کسی کو قرض دے رکھی ہے، جس پر سال گزر چکا ہے اور اسی کے بقدر رقم اس کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا زید ان رقوم میں زکوٰۃ کی ادائیگی کس طرح کرے؟
۲- زید سرکاری ملازم ہے جس کے سبب اس کو کچھ سرکاری بچت ادارے میں ہر سال جمع کرنی پڑتی ہے۔ جواگرچہ اپنے ہاتھوں سے جمع کی جاتی ہے مگر ۶۔۷ سال کی متعینہ مدت سے قبل واپس نہیں مل سکتی۔ متعینہ مدت کے بعد وہ تقریباً دوگنا ہو کر واپس ملتی ہے۔ دوسرے انکم ٹیکس کے قواعد کے تحت جیون بیمہ کی اقساط بھی سال میں ۵۔۶ ہزار جمع کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان رقوم میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور ملنے والے زائد پیسے کا کیا حکم ہے؟
۳-زید کو ملازمت کے عوض تنخواہ بینک کے کھاتے کے ذریعہ دی جاتی ہے جس میں سے وہ حسب ضرورت پیسے نکالتا رہتا ہے اور کچھ رقم کھاتے میں برابر بچی رہتی ہے مگر اس کی مقدار متعین نہیں رہتی ہے کبھی عین حساب کے وقت کوئی تنخواہ آجانے کی وجہ سے اس میں ۸۔۹ ہزارکا اضافہ ہوجاتا ہے۔لہٰذا اس کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
۴- کچھ لوگوں نے اپنی آراضی پر آم کے باغات لگارکھے ہیں اور وہ معاش کے دوسرے مشاغل سے وابستہ اورمصروف ہیں۔ باغبانی کے رائج طریقوں میں پھول آنے سے قبل اور بعد میں پیڑوں کی دھلائی اور دوا وغیرہ ڈالنے کاکام کئی مرحلوں میں کرنا ہوتا ہے۔ نیز پھل آنے کے بعد سے ٹوٹنے تک ان کی زبردست رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر مزدوروں کی قلت اور وسائل کم ہونے کے سبب زیادہ پیسے خرچ کرکے بھی کام میں دیر سویر ہوجاتی ہے۔ نیز عام طور پر کوئی دیانت دار رکھوالی کرنے والا اجرت پر نہ ملنے کے سبب پھلوں کانقصان ہوتا ہے۔ اگر پھل آنے اور واضح ہونے تک کے مراحل طے کرکے باغ فروخت بھی کیا جائے تو ملنے والی قیمت سے زیادہ عموماً لاگت لگانی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس بور آنے سے قبل یا دو تین سال کے لئے باغ فروخت کرنے کی صورت میں ان دشواریوں سے حفاظت رہتی ہے اور کچھ رقم بھی مل جاتی ہے،نیز خریدنے والے چوں کہ خود کرنے والے اور تجربہ کار ہوتے ہیں اوران کے پاس ہر طرح کے معاون اور وسائل ہوتے ہیں،اس لئے ان کو اس قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ہے۔
ان حالات میں مجبوراً باغ کو قبل از پھل،پھول یا تین سال کے لئے فروخت کرناکیسا ہے؟
ھــوالمصــوب:
۱-ان رقوم پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔(۱)
۲-الف:سرکاری ملازم کی تنخواہ سے جورقم پراویڈنٹ فنڈ کے نام سے لازماجمع ہوتی ہے اورحکومت اس میں کچھ مزیدملاتی ہے،وہ پوری رقم ملازم کے لئے حلال ہے،جب یہ رقم حاصل ہوتوسال گزرنے پراس میں زکوۃ لازم ہوگی،گزرے ہوئے سالوں کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
ب:انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے اگرکسی نے جیون بیمہ کی پالیسی لے رکھی ہے،اوراس کی قسطیں جمع کرتاہے،توپالیسی کی رقم ملنے پراتنی رقم جواس نے خودجمع کی،اس کی اپنی ملکیت ہے،اس پرزکوۃ لازم ہوگی،اورجورقم زائدملی ہے اس کوثواب کی نیت کے بغیرغرباء کودے دیاجائے۔
۳-عام طورپرلوگ ماہ رمضان میں مالی حساب کرکے زکوۃ نکالتے ہیں،لہذارمضان میں جو بھی بیلنس ہوگا وہ قابل زکوٰۃ ہوگا۔ ہر رقم پر سال پورا ہونا ضروری نہیں ہے۔(۱)
۴- پھل سے قبل فروخت کرنادرست نہیں ہے۔ یا کئی سال کا فروخت کرنا درست نہیں۔ رہا نقصان سے بچنا تو اس سلسلہ میں تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کریں۔
تحریر: محمدظہورندوی