سوال:۱-آیا عشری زمین کا جو اناج پیدا ہوتا ہے، اس میں نصاب کی ضرورت ہے یانہیں؟یعنی کچھ مقدارطے ہوکہ اگر اتنا غلہ پیدا ہو تو عشر کا حکم لاگو ہوگا؟
۲-جو لوگ پیداوار کا ٹیکس دیتے ہیں ان پر عشر لازم ہے یانہیں؟،اور جن لوگوں پر زمین کے قلیل ہونے کی وجہ سے سرکاری ٹیکس معاف ہوگیا ہے تو ان پرعشرلازم ہے یانہیں؟
۳-عشری زمین سے جو عشر نکلتا ہے اس کا مصرف مثل زکوۃ وچرم قربانی وفطرہ کے ہے یا تعمیری کام یا تنخواہ کے مصرف میں آسکتاہے؟
۴-توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر غلہ پر ٹیکس قائم ہونے کی وجہ سے عشر معاف ہوجاتا ہے تو اس صورت میں تجار کے اوپرجوآمدنی کا ٹیکس قائم ہے اور ان کو دینا بھی پڑتا ہے تو کیا ان پر بھی زکوۃ واجب نہ ہوگی؟
۵-اگر کسی آدمی کے پاس سودی رقم ہے تو کیا وہ رقم کسی غریب یا مدرسہ کے طلباء یا بیت الخلاء یا شارع عام پربل لگانے کے مصرف میں آسکتی ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ اس رقم کو غرباء ویتامیٰ وغیرہ پر خرچ کرنے کو بہتر نہ سمجھ کر ایک گنجائش نکال لیں کہ جتنی سودی رقم ہو وہ کسی غیرمسلم سے قرض لے کر محتاج کو دے دیں اور وہ رقم قرض کی ادائیگی میں اس غیرمسلم کو دے دیں، لہذا اس مسئلہ کے جواز وعدم جواز پر جو بھی صورت ہو تحریر فرمائیں۔
۶-کیا دینی کام میں مثلاً مدارس کی یا مساجد کی تعمیر میں یا طلباء کی خوراک پر کسی غیرمسلم کی رقم مصرف میں لائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فبہا، اگر نہیں تو عدم جوازکی کیا وجہ ہے؟
ھــوالـمـصـــوب:
عشری زمین وہ ہوگی جو مملکت اسلامی کو جنگ کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو اور وہ مسلمانوں میں تقسیم کردی جائے یا یہ کہ کسی مملکت کے لوگ ازخود اسلام قبول کرلیں اور ان کی زمینیں حسب سابق ان کے قبضہ وتصرف میں قائم رہیں۔ (۱)
۱-عشر کے وجوب کے لئے نصاب شرط نہیں، ردالمحتارمیں ہے:
قولہ’بلاشرط نصاب‘وبقاء فیجب فیما دون النصاب بشرط أن یبلغ صاعا وقیل نصفہ… وھذا قول الإمام وھوالصحیح۔(۲)
۲-ٹیکس یالگان کی ادائیگی سے زکوۃ وعشر ساقط نہیں ہوگا، کیوں کہ ٹیکس ولگان میںزکوۃ وعشر کے شرائط نہیں پائے جاتے ہیں۔
۳-عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے ہیں(۱)،اس لئے تنخواہوں اور تعمیری کاموں میں اس کا خرچ کرنا صحیح نہ ہوگا(۲)، إلا یہ کہ اگر مستحقین عشر وزکوۃ کے مالک ہونے کے بعد خود یا دوسروں کے کہنے پررضا ورغبت کے ساتھ ان مدوں میں خرچ کریں تو جائز ہوگا۔
۴-کھیت کاسرکاری ٹیکس اداکرنے سے عشرساقط نہیں ہوتا،اسی طرح تاجروں کے حکومت کوانکم ٹیکس دینے سے مال تجارت کی زکوۃ ساقط نہیں ہوگی۔
۵-بینک سے ملنے والا سود واجب التصدق ہے، اس کا مصرف لقطہ کی طرح فقراء ومساکین ہیں، رفاہِ عام میں اس کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے، سوالنامہ میں لکھا ہوا ہے کہ حیلہ شرعاجائز نہیں۔
۶-اگر یہ احتمال نہ ہو کہ کل کو اہل اسلام پر احسان رکھیں گے اور نہ یہ احتمال ہوکہ اہل اسلام ان کے ممنون ہوکر ان کے مذہبی شعائر میں شرکت یا ان کی خاطر سے اپنے شعائر میں مداہنت کرنے لگیں گے،توغیرمسلموں کی امداد قبول کرلینا جائزہے۔
تحریر: محمد مستقیم ندوی تصویب:ناصر علی