تدفین کے بعدقبر پر اذان دینا

تدفین کے بعدقبر پر اذان دینا
نوفمبر 11, 2018
تدفین کے بعدقبر پر اذان دینا
نوفمبر 11, 2018

تدفین کے بعدقبر پر اذان دینا

سوال:۱-زید ایک مسجد کا امام وخطیب ہے ، اسی محلہ کی ایک عورت کا

(۱) وقد صرح ابن حجر فی فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ردالمحتار،ج۳،ص:۱۴۱

انتقال ہوگیا، نماز جنازہ کے بعد دفنادیا۔ دعا ہوئی کچھ لوگ چلے گئے، کچھ لوگ موجود تھے۔مقامی امام صاحب نے قبر پر اذان پڑھ دی، دوسرے مولوی صاحب نے کہا کہ یہ اذان حدیث وقرآن وفقہ سے ثابت نہیں ہے۔ مقامی امام صاحب نے کہا میں حدیث وفقہ سے ثابت کروں گا، چند دن کے بعد ایک مفتی صاحب سے فتویٰ لایا مفتی صاحب نے قبر پر اذان کو جائز اور بہتر قرار دیا۔ مشکوۃ شریف درمختار کا حوالہ دیا۔

۲-نماز جنازہ کے بعد صفوں میں چھوہارے تقسیم کرتے ہیں، آیا عمل اسلام میں جائز ہے؟

۳-حیلۂ اسقاط کرتے ہیں میت کا وارث کچھ غلہ، نقد، قرآن پاک مولوی کو دیتے ہیں؟ مولوی صاحب سات سرکردہ لوگوں کو گول دائرہ بناکر بٹھاتا ہے، مولوی صاحب سات دنوں کے نام لے کر اس میت کی نمازیں، روزے، زکوۃ،حج وغیرہ معاف کرتے ہیں؟

ھــوالــمـصــوب:

قبرپر اذان کہنا خلاف سنت ہے، اور بدعت سیۂ ہے۔ ردالمحتار میں ہے:

تنبیہ:فی الاقتصاد علی ماذکر من الوارد اشارۃ علی أنہ لایسن الأذان عند ادخال المیت فی قبرہ کما ھو المعتاد(۱)

۲-بدعت ہے، کوئی اصل شرعی نہیں ہے، نہ صحابہ کرام نے کیا نہ تابعین نے۔

۳-بدعت ہے، قرآن وحدیث وسلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔

تحریر:محمدمستقیم ندوی                تصویب: ناصر علی ندوی