امام اپنے رشتہ داروں کو مسجد میں ٹھہراسکتے ہیں؟

مسجد کی دوسری منزل پر امام کا قیام
نوفمبر 3, 2018
امام کے مخارج درست نہیں ہیں
نوفمبر 3, 2018

امام اپنے رشتہ داروں کو مسجد میں ٹھہراسکتے ہیں؟

سوال:زید ایک مسجد میں امامت کرتا ہے ظاہری وضع قطع میں مناسب ہے لیکن اول تو اپنے عزیز واقارب میں سے پانچ چھ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتا ہے، ایک بھائی ہے جس کی ایک دکان ہے دن بھر وہ دکان پر بیٹھتا ہے، لیکن رات میں مسجدہی میں رہتا ہے، اور کھانا بھی مسجد ہی میں کھاتا ہے، نیز مسجد میں نہانے دھونے کا پانی، بیت الخلاء پنکھا کولر وغیرہ کا استعمال بھی یہ سارے لوگ آزادنہ طور پر کرتے ہیں، اور پورے سال عزیزواقارب کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ علاوہ ازیں زید مصلیوں اور غیر مصلیوں میں سے کئی لوگوں کے نہایت بھونڈے الزام لگانے کی بات بھی بہت کثرت سے پھیلی ہوئی ہے جس کا زید کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے یہ کام صرف مذاق میں کیے اور وہ ایک نامحرم کے گھر میں جاتا ہے اور عورتوں سے بے پردہ باتیں کرتا ہے اعتراض کرنے پر انہوں نے یہ مسئلہ بتاکر لوگوں کو خاموش کرنا چاہا کہ جب صاحب خانہ اجازت دے دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں، یہ مسئلہ کہاں تک درست ہے؟ یہ ساری چیزیں لوگوں پر نہایت ناگوار گزرتی ہیں، سات آٹھ لوگوں نے نماز پڑھنا چھوڑدی ہے۔ دوسری مسجد میں جاتے ہیں لوگوں میں زید کو برطرف کرنے کی عام فضا بن چکی ہے تو کیا زید کو امامت سے برطرف کرنا درست ہے؟ جبکہ وہ ظاہری وضع قطع میں مناسب نیز حافظ قرآن ہیں، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن علوم نبوت کے حامل کا درجہ بہت بلند ہے جس کی بنا پر بڑی بڑی غلطیوں کو نظرانداز کیاجاسکتا ہے، ان کو برقراررکھنا زیادہ بہتر ہے یا حکمت کے ساتھ امامت سے برطرف کرنا بہتر ہے؟ آئندہ نمازیوں کی تعداد مزید گھٹ جانے کا اندیشہ ہے کیوں کہ ان کے خلاف نہایت خراب باتیں پھیل رہی ہیں اور ان کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں ہے؟

ھـو المـصـوب

بشرط صحت واقعہ امام صاحب کو مذکور عمل سے احتراز لازم ہے، مسجد میں کسی کو ٹھہرانا صحیح نہیں ہے،ذمہ داران مسجد کو چاہئے کہ امام کو مذکور عمل سے روکے، اگر مذکور عمل سے باز آجاتے ہیں تو فبھا ورنہ امام صاحب کو امامت سے حکمت عملی کے ساتھ سبکدوش کرسکتے ہیں۔

تحریر: محمد مستقیم ندوی              تصویب: ناصر علی ندوی