جن مدارس میں طلبہ نہ ہوں ان مدارس کوزکوۃ دیناکیساہے؟

صحیح مصرف میں زکوۃ خرچ نہ کرنے کی صورت میں ادائیگی ؟
نوفمبر 29, 2022
بطورقرض زکوۃ دے کرقسطوں میں واپس لینا
نوفمبر 29, 2022

جن مدارس میں طلبہ نہ ہوں ان مدارس کوزکوۃ دیناکیساہے؟

سوال:آج کل عام طور پر(چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر)مدارس میں یہ رجحان بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ سال بھر اساتذہ کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے۔رمضان اور بقرعید کے موقعہ پر مدرسہ کی رسید دے دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ چندہ کیجئے اور اپنی تنخواہ نکال لیجئے اور جو بیچارہ چندہ نہیں جمع کرسکتا،ان کی تنخواہ یوں ہی پورے سال کی باقی رہ جاتی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آپ کو تنخواہ کہاں سے ملے گی۔ آپ نے چندہ ہی نہیں کیا۔ چندہ کیجئے تنخواہ لیجئے۔جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ مدرسہ والے رسید دیتے وقت مدرسہ کا تعارف نامہ اور تصدیق نامہ بھی استاد کے حوالہ کرتے ہیں جس میں یہ صراحت ہوتی ہے کہ

’’مدرسہ کے ہاسٹل میں اتنی تعداد میں مثلاً(یعنی جتنی تعداد تصدیق نامہ میں لکھتے ہیں) غریب ونادار طلباء رہتے ہیں،جن کے قیام وطعام اور دیگر ضروریات کی کفالت مدرسہ کرتا ہے‘‘۔

حالانکہ ایسے مدرسوںمیںجب کوئی غریب ونادار طالب علم پہنچ جاتا ہے تو شاید کسی کا داخلہ ہوجاتا ہو ورنہ یہ کہہ کر واپس کردیا جاتا ہے کہ غیر مستطیع داخلہ کی گنجائش نہیں ہے۔بہرحال قطع نظر اس سے کہ تصدیق نامہ کے اس جملہ میں کتنی صداقت ہے اور مدرسہ کے مہتمم اور ناظم کتنا عمل کرتے ہیں ۔جب مدرسہ کے استاد چندہ کرنے جاتے ہیں تو چندہ دینے والے ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے یہاں ہاسٹل ہے؟ غریب ونادار طلباء ہیں؟تو ان کو پورے طور پر یقین دلایا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں ہاسٹل بھی ہے اور زکوٰۃ وصدقات کے مستحق طلباء بھی رہتے ہیں ۔چنانچہ اس طرح اہل خیر حضرات کو مطمئن کرکے چندہ کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری رقم مدرسہ کے ذمہ باقی تنخواہ کے نام پر چندہ کرنے والے کی جیب میں رہ جاتی ہے،بلکہ جب شوال میں حساب ہوتا ہے تو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پوری تنخواہ بھی نہیںنکل پاتی ہے اور ان کو ذی الحجہ کا بھروسہ دیاجاتا ہے۔ جواب طلب بات یہ ہے کہ کیا اس صورت میں زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟

ھــوالمصــوب:

جن مدارس کے بارے میں اس طرح کی بات یقینی طورپرمعلوم ہے انہیں زکوۃ کی رقم نہ دی جائے، اور اگرلاعلمی میں کسی ایسے مدرسہ کوزکوۃ کی رقم دے دی گئی اوربعدمیں یقینی طورپریہ بات معلوم ہوگئی کہ زکوۃ کی رقم مصرف پرصرف نہیں کی گئی تودوبارہ زکوۃ اداکردی جائے،تحقیق نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی ہوجائے گی،کیونکہ زکوۃ دینے والے مہتمم مدرسہ یااس کے نمائندہ کومستحق طلبہ کاوکیل سمجھ کر زکوۃ دیتے ہیں،مصرف پرصرف نہ کرنے کی ذمہ داری کاگناہ مہتمم کے ذمہ ہوگا۔ (۱)

تحریر:ساجد علی             تصویب:ناصر علی