سوال:میری بیوی کا انتقال ہوچکا ہے، جس کی ۳۱سال کی نماز باقی ہے جو اس کی زندگی میں نہیں پڑھی گئی۔ قضائے عمری انتقال کے بعد دوسرا کوئی پڑھ نہیں سکتا۔ نمازوں کا فدیہ دیا جاسکتا ہے جو ۳۱سال کا تقریباً ۸لاکھ روپئے آتا ہے۔ اتنی رقم کسی بھی صورت میں موجود نہیں ہے جس کے نہ ہونے پر بتایا گیا ہے کہ تھوڑی رقم مثلاً ۱۰ہزار روپئے یا ۲۵ہزار روپئے جیسی حیثیت سے کسی ضرورت مند کو بتاکر دو اور اس کو سمجھادیا جائے تاکہ وہ اپنی خوشی سے واپس کردے پھر اس کو ہبہ کردو پھر وہ واپس کردے پھرہبہ کردو پھر وہ خوشی سے واپس کردے۔ اسی طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہے جب تک ۸لاکھ روپئے پورے نہ ہوں،یعنی ۱۰ہزار پر ۸۰مرتبہ اور ۲۵ہزار پر ۳۲مرتبہ۔ آخر میں وہ روپیہ اس ضرورت مند کو دے دیا جائے،کیا اس طرح سے فدیہ دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں پوری معلومات فراہم کردیں۔
(۱) ولومات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من برکالفطر وکذا حکم الوتر والصوم۔درمختارمع الردج۲،ص:۵۳۳
ھــوالــمـصــوب:
صورت مسؤلہ میں اگر وصیت کی ہے تو ترکہ کے ایک تہائی سے فدیہ ادا کرنا واجب ہے۔ بصورت دیگر اگر ورثاء ان کی مغفرت کے لئے اپنے مال سے فدیہ ادا کردیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ اگر ترکہ سے ادا کرنا چاہتے ہیں اور وصیت نہیں کی تھی یا وصیت کی تھی لیکن ایک تہائی مال سے زیادہ فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کل ورثاء کی رضامندی ضروری ہے۔
اگر کل نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ممکن نہ ہو تو قلت مال کے سبب یا ورثاء کی عدم رضامندی کے سبب تو ایسی صورت میں جتنی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ممکن ہو ادا کردیں باقی نمازوں کے لئے استغفار کرتے رہیں(۱)
حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:
جس عبادت کا شرع میں بدل ہے،بدل پر قدرت ہونے تک وہ توبہ سے معاف نہیں ہوتی،بعد عجز وہ بھی معاف ہوجاتی ہے(۲)
بہرحال وصیت کی صورت میں صرف تہائی ترکہ سے ضروری ہے، اور وصیت نہ ہونے کی صورت میں کچھ ضروری نہیں ہے، البتہ وارثوں کی خوشی پر منحصر ہے۔
تحریر:مسعود حسن حسنی تصویب:ناصر علی ندوی